تو کیا امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس بنا پر امام زہری، امام مالک ،امام شافعی رحمۃاللہ علیہم اور ان کے نظریہ کے حاملین کے اعتقاد پر اس طرح طعن کیا اور ان پر ایسے الزامات والقابات چسپاں کیے تھے؟ یقیناً جواب نفی میں ملے گا۔ حماد بن زید سے سوال کیا گیا: من المرجئة؟ قال: الذين يقولون: الإيمان قول بلا عمل [1] ’’مرجئہ کون ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ایمان قول ہے عمل کے بغیر۔‘‘ ابو الحارث کہتے ہیں: وسئل أبو عبد الله وأنا أسمع عن الإرجاء ما هو؟ قال من قال: الإيمان قول فهو مرجئي . والسنة أن تقول: الإيمان قول و عمل، يزيد وينقص[2] ’’میں سُن رہا تھا کہ ابو عبد اللہ (امام احمد) سے سوال کیا گیا کہ اِرجاء کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جس نے کہا ایمان قول ہے پس وہ مرجئہ ہے ( سلف کا) طریقہ یہ ہے کہ تو کہے کہ ایمان قول و عمل ہے ، کم اور زیادہ ہوتا ہے۔‘‘ امام ابوجعفر طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: هذا الإسم فیمن کان من قوله الإیمان قول بلا عمل وفیمن کان مذهبه أن الشرائع لیست من الإیمان [3] ’’یہ نام (مرجئہ) ان لوگوں کا ہے جن کا موقف ہے کہ ایمان قول ہے عمل کے بغیر اور یہ اُن کا (نام ہے) جن کا مذہب ہے کہ شرعی احکام و اعمال ایمان کا جز نہیں ہیں۔‘‘ البتہ خوارج او رمعتزلہ، سلف کے زمانہ میں بھی اپنے مخالفین ، اہلسنت والجماعت اور ان کے اَئمہ و علما کو مرجئہ ہونے کا الزام دیا کرتے تھے۔جیساکہ شیبان نے عبداللہ بن مبارک |