سیاست وخلافت انٹرویو: ڈاکٹر حافظ حسن مدنی صدارتی استثنا اور اسلام؟ ’مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان‘ کے زیر اہتمام ’پیغام ٹی وی‘ نے 25/فروری 2012ء سے اپنی باقاعدہ نشریات کا آغاز کردیا ہے۔ پیغام ٹی وی نے مدیر ’محدث‘ سے پاکستانی سیاست کو درپیش مذکورہ بالا اہم مسئلہ پر انٹرویو کیا جسے بعد میں ایک سے زائد بار چینل پر نشر کیا گیا۔ مذکورہ انٹرویو ضروری اصلاح کے بعد ہدیۂ قارئین ہے۔ ادارہ 1. سوال: ڈاکٹر صاحب!پاکستان کے آئین میں صدارتی استثنیٰ کا کیا قانون ہے اور اسلام کی رو سے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب: پاکستان میں صدارتی استثنا کا قانون دستورِ پاکستان کی دفعہ 248 کی شق دوم میں موجود ہےجس میں یہ بات موجود ہے کہ پاکستان کے صدر یا گورنرپر اُس کے عہدے کی میعاد کے دوران کسی عدالت میں کوئی فوجداری مقدمہ قائم نہیں کیا جائے گا ۔ حالانکہ پاکستان میں اِسلام کے نفاذ کے لیے 1951ء میں جب 31 علما نے 22 متفقہ نکات دیئےتو اُنہوں نے یہ قرار دیا تھا کہ صدرِ پاکستان کو یہ استثنیٰ دینا درست نہیں ہے، اور خلافِ اسلام ہونے کی بنا پر اس کو ختم کردیا جائے ۔ لیکن جب 1973ء میں پاکستان کا پہلا متفقہ دستور بنا تو اس میں یہ شق موجود تھی جو علماے کے 22 نکات کے خلاف تھی ۔ 1973ء کے بعد سے آج تک تک یہ شق اِسی طرح چلی آرہی ہے۔ میرےخیال میں اس کو باقی رکھنا ہمارے صدور حضرات اپنی مجبوری سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں یہ قانون اُن کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔حالانکہ 1985ء میں صدر ضیاء الحق کے دور میں ایک بار اس شق کوخلافِ اسلام قرار دے کر ختم کرنے کی دوبارہ کوشش کی گئی تھی لیکن پھر یہی تحفظ والی مجبوری آڑے آ گئی۔چنانچہ آج بھی یہ خلافِ اسلام قانون موجود ہے ۔ 2. سوال:یہ قانون کہاں سے آیا اور کیا یہ قانون اسلام کے تصور مساوات کے منافی نہیں |