Maktaba Wahhabi

33 - 111
2. ۲۰۰۱ء کا آغاز ہوتے ہی نائن الیون کا ڈرامہ خود ہی امریکی یہودیوں نے رچایا اور پھر اس کا سارا ملبہ مسلمانوں پر ڈال دیا گیا۔ وہ دن اور آج کا دن، مسلمان سر نہیں اُٹھا سکے۔ پاکستان کو ڈرا دھمکا کر اس کے بھر پور تعاون سے افغانستان پر حملہ کیا گیا۔ بعد ازاں مختلف جھوٹے خود ساختہ حیلوں بہانوں سے ۲۰۰۳ء میں عراق پر حملہ کر دیا گیا۔ دونوں ملکوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا اور سارے مسلمان صرف تماشا دیکھنے پر مجبور ہو کر رہ گئے۔ 3. مشرف دور میں پاکستان پر بے انتہا ثقافتی یلغار کی گئی۔ اس پر مختلف معاشی پابندیاں بھی لگائیں گئیں۔ اس کے ایٹمی اسلحہ کو تباہ کرنے کی بھر پور تیاریوں کے ساتھ امریکی فوج دندناتی ہوئی پاکستان میں گھس آئی۔ پاکستان پر ڈرون حملے، قبائلی علاقوں پر مسلسل بمباری،سوات، باجوڑ ایجنسیوں میں مختلف آپریشن ہوئے۔ اور پھر اخباروں میں سرخیاں لگتی رہیں: ’’اہل پاکستان نے سوات سے آنے والے مہاجرین کی مدد کرتے ہوئے انصار کی یاد تازہ کر دی۔ ‘‘ دل یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ قتل کرنیو الے مسلمان، جن کو وہاں سے نکالا گیا وہ ان سے بہت اچھے پابندِ شریعت مسلمان، ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان، پھر یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہی پاکستانی فوج کے ہاتھوں زخم کھاکر مہاجر کیسے بنے؟ ان کے لیے مظلوموں کا لفظ استعمال کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا پاکستانی فوج نے ان پر ظلم نہیں کیا کہ امریکہ کو راضی کرنے کے لیے اپنے بھائی بندوں پر اسلحہ اُٹھایا۔ اور اُن کو بری طرح سے دربدر کر کے امریکہ کو خوشخبریاں سنائیں کہ شدت پسندوں سے ہم نے اچھی طرح نبٹ لیا ہے۔ حالانکہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی فوج کے نزدیک جو شدت پسند تھے دراصل ان کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ اپنے علاقے میں اسلام کا نظامِ عدل نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ 4. اس کے بعد پاکستانی فوج اسلام آباد کی مسجدوں کو’فتح‘ کرنے لگی کہ یہ شاہراہِ عام پر واقع ہونے کی وجہ سے رکاوٹ بنتی ہیں۔ حالانکہ مسجدوں کو گرا کر ان کی زمینوں کو کسی اور کام میں لانا شرعاً ممنوع ہے۔ چار ہزار دین کا علم حاصل کرنے والی، حافظِ قرآن اور طالباتِ قرآن و سنت، فاسفورس بموں کے ذریعے قتل کر دی گئیں، ان کی لاشوں کو پگھلایا اور پھر اجتماعی قبروں میں ان کو نظروں سے اوجھل کر دیا گیا۔ لواحقین مطالبہ
Flag Counter