Maktaba Wahhabi

34 - 111
کرتے ہی رہ گئے کہ ہمارے بچوں کی میت ہی ہمیں دکھادو۔ مگر وہاں کون جواب دینے والا تھا؟ ۱۹۹۲ء میں جب ہندوستان میں جنونی ہندوؤں نے بابری مسجد گرائی تھی، تو اہل پاکستان نے اس پر کتنا احتجاج کیا تھا؟ لیکن اب پاکستان کی اسلامی ریاست کا صدر خود اسلام آباد کی مساجد کو اور قرآن و حدیث کی طالبات کو امریکہ کی خوشنودی کے لیے تہ تیغ کر رہا تھا اور اسے عین وطن کی خدمت باور کرایا جانے لگا۔ 5. پاکستان میں پاکستانی حکومت کی سرکردگی میں میڈیا کے شور و غل میں ویلنٹائن ڈے، میراتھن دوڑ اور بسنت جیسے مغربی اور ہندوانہ تہوار اس جوش و خروش سے منائے گئے کہ خود ہندو اور اہلِ مغرب عش عش کر اُٹھے۔ اپنی عیدیں پاکستان کی نوجوان نسل کو پھیکی اوربور لگنے لگیں۔ محرم و غیر محرم اور حلال و حرام سے بے نیاز نو خیز طلبہ و طالبات اب مخلوط طور پر نیکریں پہن کر سڑکوں پر دوڑنے لگے۔ وہ 14 فروری کو یومِ محبت منا کر اپنے ’دوستوں‘کو پھول پیش کرتے نظر آنے لگے۔ 6. وہ پاکستان جو ’لا الہ الا اللہ‘کے نام پر وجود میں آیا تھا، وہاں اب ۲۰۰۹ء میں کراچی میں این جی اوز نے ’سیکس ورکرز کی کامیاب ورکشاپ‘ منعقد کر کے مطالبہ کیا کہ طوائفوں کی آمدنی کو جائز اور قانونی سمجھ کر اُنہیں ’ باقاعدہ اپنا پیشہ اختیار کر کے روزی کمانے کا حق‘ دیا جائے۔ اور پھر اسلام آباد میں خود امریکی سفارتخانہ میں ۲۶ جون ۲۰۱۱ء کو اس نے ہم جنس پرستوں کا پروگرام بھی کروا ڈالا۔ اور پھر ان کے حقوق کی انہیں یقین دہانی کروائی تھی۔ کیا ایسے لچر اور فضول پروگرام پاکستان ہی میں ہونا تھے؟ 7. مغربی نیو ورلڈ آرڈر کے ناخداؤں کا اصرار ہے کہ مسلمانوں کے دلوں سے محبتِ رسول نکالنا ضروری ہے۔ اس غرض کے لیے وہ منظم طور پر سازش کے تحت ۲۰۰۵ء سے ہمارے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی کردار کشی کرنے کے لیے غلیظ اور گستاخانہ خاکے چھاپتے چلے جا رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے احتجاج کو پرکاہ کی حیثیت دینے کو تیار نہیں۔ وہ اس کو اپنی ’رائے کا ظہار‘کہتے ہیں کہ ہمیں حق حاصل ہے کہ ہم اپنی رائے کا اظہار کریں۔ اور مسلمانوں کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ لہٰذا تمام مغربی ممالک یکے بعد دیگرے دل پسند مشغلے کے طور پر خاکے چھاپتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق: ’’۸ جنوری ۲۰۱۰ء کو ناروے کے اخبار آفتن پوسٹن (Afton Poston) نے رسول
Flag Counter