پاک کے توہین آمیز خاکے دوبارہ شائع کر دئیے۔ ساتھ ہی اخبار کی چیف ایڈیٹر Hilde Haugrjerd نے ڈیڑھ اَرب مسلمانوں کو چیلنج کرتے ہوئے کہا: ’’مجھے یقین ہے کہ خاکوں کی اشاعت سے کوئی مضبوط ردِ عمل سامنے نہیں آئے گا۔‘‘ (گویا نعوذ باللہ اس کے نزدیک مسلمانوں نے ناموسِ رسول کی کوئی خاص قدر نہیں کی۔ وہ اب اس توہینِ رسالت کے عادی ہو چکے ہیں۔ لہٰذا اب جو چاہو، کرو ) تو پھر اے مسلمانو! اٹھو اور اب اپنا بھر پور ردِ عمل دو۔‘‘[1] پاکستان میں توہینِ رسالت کے قانون 295/سی سے اہلِ مغرب کو بہت پرخاش ہے۔ وہ ہر وقت پاکستانی حکمرانوں کو اس قانون کو ختم کرنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں اور خود ہر وقت ہمارے رسول مقبول کی توہین کرنے کو اپنا دل پسند مشغلہ سمجھتے ہیں۔ اپنی زبانوں کو وہ لگام ڈالنے کو تیار نہیں اور ہمیں حکم دیتے ہیں کہ 295/سی والا قانون دہشت گردی والا قانون ہے، اس کو ختم کرو۔ چنانچہ پاکستان میں آسیہ مسیح کو اسی قانون کے تحت عدالت نے سزا کا حکم سنا کر جیل میں بھیج دیا تو پورے مغرب میں آگ لگ گئی کہ آسیہ کو فوری رہا کرو اور اس قانون کو ختم کرو۔ خود پوپ بینی ڈکٹ نے پاکستان کی حکومت کو اپنا ’حکم دینا‘ لازمی سمجھا اور پاکستان کی حکومت تعمیل کو تیار ہو گئی۔ اسی دوران گورنر لاہور ممتاز قادری کے ہاتھوں قتل ہوا تو پاکستانی قوم نے اس خبر کا خیر مقدم کیا۔ وکیلوں نے جیل میں قاتل کو پھولوں کے ہار پہنائے مگر اسی گرد میں امریکہ آسیہ مسیح کو رہا کروا کے لے گیا۔ جبکہ ممتاز قادری ابھی تک پاکستانی عدالتوں کا تختۂ ستم بنا ہوا ہے۔ 8. اَمریکہ کا بدمعاش ’ریمنڈ ڈیوس‘جو پاکستان میں سی آئی اے کا ڈائریکٹر اور بلیک واٹر جیسی تنظیم کا ممبر ہے،جو پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا مکمل طو رپر ذمہ دار ہے، جس کا مشن پاکستان کے ایٹمی اسلحہ کو تباہ کرنا تھا۔ وہ قتل کی گھناؤنی تین وارداتوں میں ملوث تھا۔ ’خوش قسمتی‘ سے پاکستان کے ہاں گرفتار ہو ہی گیا تو پاکستان کے حکمرانوں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ پنجاب حکومت، وفاقی حکومت، فوجی اسٹیبلشمنٹ غرض ہر ایک کو امریکہ نے خوب ڈرایا دھمکایا اور بالآخر وہ اسلام کے اصولِ دیت کو |