الفتیا والفتوٰى: الجواب عما یشکل من الأحکام ویقال: استفتیت فأفتاني [1] ’’فتویٰ مشکل احکام کے بارے میں دیئے جانے والے جواب کو کہتے ہیں۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ میں نے فتویٰ دریافت کیا تو اُس نے مجھے فتویٰ دیا۔‘‘ اِصطلاحی مفہوم علماے اُصولِ فقہ کے مطابق فتویٰ کے شرعی معنی اَدلّہ شرعیہ کی روشنی میں الله تعالیٰ کے حکم کو بیان کرنا ہے۔ نواب صدیق حسن خان فتویٰ کا اِصطلاحی مفہوم یوں بیان کرتے ہیں: "هو علم تروي فیه الأحکام الصادرة عن الفقهاء في الواقعات الجزئیة لیسهل الأمر على القاصرین من بعدهم" [2] ’’یہ وہ علم ہے جس میں ان احکام کو نقل کیا جاتا ہے جو فقہا سے واقعاتِ جزئیہ کے بارے میں صادر ہوتے ہیں تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے معاملات آسان ہو جائیں۔‘‘ نواب صدیق حسن خان کی اس تعریف کے مطابق فتویٰ اصول و کلیات اور بنیادی قواعد و ضوابط میں بحث و تحقیق کا نام نہیں بلکہ پیش آمدہ جزوی مسئلہ کا حل تلاش کرنے کا نام ہے۔ اَہمیتِ فتویٰ تمام فقہا کا اتفاق ہے کہ طلبہ کو تعلیم دینا اور استفتاء کرنے والوں کو فتوٰی دینا فرض کفایہ ہے اور اگر کسی مسئلہ یا واقعہ کے پیش آنے کے وقت صرف ایک ہی ایسا شخص ہو جو اس کا جواب دے سکتا ہو تو اس کےلیے جواب دینا فرضِ عین ہے اور اگر وہاں اس کے علاوہ کوئی اور شخص بھی اس کا اہل ہو تو پھر یہ دونوں کے لئے فرض کفایہ ہوگا۔فتویٰ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی نسبت اپنی طرف کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَ يَسْتَفْتُوْنَكَ۠ فِي النِّسَآءِ1 قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ1ۙ ﴾ [3] ’’اے پیغمبر! یہ آپ سے عورتوں کے متعلق فتویٰ طلب کرتے ہیں؛ فرما دیجئے !اللہ |