تمھیں ان کے متعلق فتویٰ دیتا ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ علامہ ابن قیم رحمۃاللہ علیہ نے اس سلسلہ میں اپنی مایہ ناز اور بلند پایہ کتاب کا نام ’اعلام الموقعین عن ربّ العالمین‘رکھا ہے ۔یعنی مفتی حضرات سے جب دینی مسائل دریافت کیے جاتے ہیں تو ان کا جواب دیتے وقت گویا وہ اللہ ربّ العزت کی طرف سے دستخط کرتے ہیں، علامہ موصوف فرماتے ہیں: ”جب ملوک وسلاطین کی طرف سے دستخط کرنے کا منصب اس قدر بلند ہے کہ اس کی قدرومنزلت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور دنیا میں اسے عالی مرتبہ شمار کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دستخط کرنے کی عظمت وشان تو اس سے کہیں زیادہ بلند وبرتر ہے۔‘‘ [1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندگی بھر اس عالی شان منصب پر فائز رہے، کیونکہ نبوت کا اصل محور یہی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ﴾[2] ’’ہم نے آپکی طرف ذکر(شریعت)کو نازل فرمایا تاکہ آپ لوگوں کے سامنے ان کی طرف نازل شدہ شریعت کی تشریح فرمائیں تاکہ وہ غور فکر کریں۔‘‘ علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’یقیناً فتویٰ دینا انتہائی حساس،قابل قدر اور بڑی فضیلت والا کام ہے، کیونکہ مفتی، حضرات انبیاے کرام علیہم السلام کا وارث ہوتا ہے اور فرضِ کفایہ کوادا کرتا ہے۔ گو وہ ان کی طرح معصوم عن الخطا نہیں ہوتا بلکہ اس سےسہو وخطا کا صدورممکن ہوتا ہے غالباً اسی لیے علما نے کہا ہے کہ مفتی اللہ ربّ العزت کی طرف سے دستخط کرنے والا ہوتا ہے۔‘‘[3] چونکہ فتویٰ کا موضوع اللہ تعالیٰ کے احکام بیان کرنا ہے تاکہ لوگ ان کے مطابق عمل کرسکیں، اسی لیے مفتی کو اللہ تعالیٰ کا ترجمان قرار دیا جاتا ہے۔ |