Maktaba Wahhabi

85 - 111
اِفتا و استفتا کا تاریخی جائزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیتِ مفتی اعظم فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کا سلسلہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے شروع ہوا،کیونکہ آپ ہی مہبطِ وحی، شارعِ اسلام اور مرجع خلائق تھے۔حافظ ابن قیم رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں افتاء کے منصب پر جنہیں سب سے پہلے فائز ہونے کا شرف حاصل ہے، وہ خود سید المرسلین، امام المتقین خاتم النّبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے۔ [1] عہدِ رسالت میں فتاویٰ کا سلسلہ اکثر و بیشتر زبانی طور پر ہی چلتا رہا۔ جب کوئی مشکل مسئلہ پیش آتی تو لوگ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے تھے۔ آپ وحی الٰہی کی روشنی میں فتویٰ دیا کرتے تھے۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات پر سختی سےعمل کیا اور اُنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف وہی سوالات پوچھے جو ناگزیر تھے اور جن کے پوچھنے کی اُنہیں واقعی ضرورت تھی۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اِفتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف لوگ فتویٰ کے لیے رجوع کیا کرتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے اجتہاد سے ان مشکل دینی مسائل کے بارے میں فتاویٰ صادر فرماتے۔عہدِ صحابہ میں فتاویٰ کا سلسلہ زبانی اور تحریری دونوں طریقوں سے جاری رہا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے بعض سے تو کثرت سے فتاویٰ منقول ہیں اور بعض کے فتاویٰ کی تعداد انتہائی قلیل ہے۔ ان میں سے بعض کے فتاویٰ کی تعداد کثرت و قلت کے درمیان ہے۔ اُن میں سے مدینہ منورہ میں خلفاے راشدین کے علاوہ حضرت زید بن ثابت، حضرت اُبیّ بن کعب، حضرت عبدالله بن عمر اور امّ المؤمنین حضرت عائشہ، مکہ مکرمہ میں حضرت عبدالله بن عباس، کوفہ میں حضرت علی اور حضرت عبدالله بن مسعود، بصرہ میں حضرت انس بن مالک اور حضرت ابو موسیٰ اشعری، شام میں حضرت معاذبن جبل اور
Flag Counter