Maktaba Wahhabi

86 - 111
حضرت عبادہ بن صامت اور مصر میں حضرت عمرو بن عاص کے اَسماے گرامی قابل ذکر ہیں۔ تاریخ کے صفحات میں قریباً ایک سو تیس حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسماے گرامی محفوظ ہیں، جو مسندِ افتا پر فائز تھے۔امام ابن حزم اور حافظ ابن قیم نے باقاعدہ ان صحابہ کی فہرست مرتب فرمائی ہے جومنصبِ افتا پر فائز تھے۔ [1] تابعین و تبع تابعین اور افتا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد کے بعد جلیل القدر تابعین و تبع تابعین منصبِ افتا پر فائز رہے، ان میں سے سعید بن مسیّب، سعید بن جبیر، عروہ بن زبیر، مجاہد، عطا، علقمہ بن قیس، قاضی شریح، یزید بن ابی حبیب اور لیث بن سعد رحمۃ اللہ علیہم نمایاں ہیں۔امام ابن حزم نے تو ان تابعین، تبع تابعین اوردیگر اَئمہ دین کی ایک مفصل فہرست بھی مرتب کی ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، بصرہ کوفہ ،شام، مصر اور دیگر علاقوں میں منصبِ افتا پر فائز رہے۔ [2] اِسی طرح قیروان ، اندلس ، یمن اور بغداد میں بھی ممتاز اصحابِ علم نے اپنے اپنے دور میں فن فتاویٰ نویسی کو عروج دیا اور عوام اپنے دینی مسائل کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے رہے۔یوں یہ کام وسعت اختیار کرتا گیا اور اکنافِ عالم میں اسلام پھیل گیا۔ تاریخِ فتاوٰی نویسی تابعین کے دور کے بعد تاریخ اسلام میں کوئی بھی دور ایسا نہیں جس میں فتاویٰ کے مجموعے مرتب نہ کیے گئے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ادبِ اسلامی میں فن فتویٰ نویسی میں ایک تسلسل نظر آتا ہے اور کوئی بھی دور اس صنف سے خالی نہیں رہا۔ذیل میں نمایاں مجموعہ ہائے فتاوٰی کے نام دیئے جا رہے ہیں جن سے اس کے تاریخی ارتقا کا اظہار ہوتا ہے: ’نوازل‘ از ابو لیث سمرقندی(م۳۹۳ھ)،’النتف فی الفتاویٰ‘ از ابو الحسن سعدی(م۴۶۱ھ)، ’الفتاویٰ الکبری‘ و ’الفتاویٰ الصغری‘ ازحسام الدین الصدر الشہید (م۵۳۶ھ)،’فتاوی‘ از قاضی عیاض(م۵۴۴ھ)،’التجنیس والمزید‘از مرغینانی (م۵۹۲ھ)، ’فتاویٰ تمرتاشی‘ (م۶۱۰ھ)،’فتاویٰ ابن الصلاح‘(م۶۴۳ھ)،’فتاویٰ مصریہ‘از غربن بدالسلام(م۶۶۰ھ)، ’المنشورات وعیون المسائل
Flag Counter