کرنا(ص۳۱۶تا۳۳۵) اور عورتوں کو لکھنا سکھانا(ص۳۰۰تا۳۱۵) خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ آپ نے تعلیم نسواں پر بہت خوبصورت اور عامیانہ اَنداز میں بحث شروع کی اور تعلیم نسواں کا استنباط قرآن مجید و اَحادیث سے کیا، شروع میں ان لوگوں پر نقد جرح کیا جو عدم جواز تعلیم نسواں کے قائل تھے۔ اور جن علما نے عدم جواز کی حدیث ابن حبان کی کتاب الضعفاء (یہی حدیث امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے المستدرک میں باب ضعیف الایمان میں پیش کی) سے استدلال کیا ہے ان پر جرح کی اور اس حدیث کو ضعیف قرار دیا اور یوں تحریر فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے ایک راوی محمد بن ابراہیم شامی کو امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب (میزان الاعتدال) میں منکر حدیث، واضع حدیث اور امام دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کذاب لکھا ہے نیز امام جوزی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب العلل المتناہیۃمیں لکھا ہے کہ وہ حدیث وضع کرتاتھا اس لیے اس کی یہ حدیث روایت کرنا ناجائز قرار دیا اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب تقریب میں اسے منکرِ حدیث لکھا ہے۔بعد اَزاں اَئمہ سے مزیدابراہیم شامی سے متعلق جرح و تعدیل کے اقوال پیش کیے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہ والی روایت پر بھی دلائل دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: ’’اس حدیث کی سند میں ایک راوی جعفر بن نصر ہے،اسپر محدثین نے کلام کیا ہے۔‘‘ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب(میزان) میں اسے مہتم بالکذب لکھا ہے اور اس کی مزید دو حدیثیں نقل کرکے اسے موضوع قرار دیا۔ اس کے بعد جواز تعلیم النساء پر اَئمہ تفسیر کے اَقوال سے استشہاد پیش کرتے ہیں اور احادیث سے جواز تعلیم النسواں کا ثبوت پیش کیا۔[1] ۶)فتاویٰ غزنویہ ازعبدالجبار غزنوی (۱۸۵۱ء۔۱۹۱۲ء) مولانا عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ ۱۲۶۸ھ /۱۸۵۱ء میں غزنی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ تھا۔[2] اِبتدائی تعلیم اپنے بھائی مولانا محمد احمد رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ پھر آپ دہلی تشریف لے گئے۔ وہاں سید نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے کتبِ احادیث کی سند حاصل کی۔ بہت ذہین تھے ابھی عمر بیس برس بھی نہیں تھی کہ وہ علوم متداولہ سے فارغ ہو چکے تھے۔ [3] |