فراغت تعلیم کے بعد اَمرتسر میں قرآن و حدیث کی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ مولانا عبداللہ غزنوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی درس گاہ کا نام مدرسہ غزنویہ رکھا تھا۔ آپ نے یہ نام بدل کر تقویۃ الاسلام رکھ دیا۔مولانا سید عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کی ساری زندگی درس و تدریس ، دعوت و ارشاد اور وعظ و تبلیغ میں بسر ہوئی۔[1] مولانا عبدالحئی الحسنی فرماتے ہیں: ’’میں نے بارہا اَمرتسر میں آپ کی زیارت کی۔ آپ کو سلف صالحین کے طریقے پر پایا۔ آپ جب فتوٰی دیتے توکسی خاص مسلک کی پابندی نہیں کرتے تھے۔ بلکہ دلیل کی بنیاد پر فتوٰی دیتے تھے۔ اَئمہ مجتہدین کے سلسلہ میں بدگمانی نہیں کرتے تھے۔ جب بھی ان کا ذکر کرتے اچھے اَنداز میں کرتے تھے۔‘‘[2] آپ نے ۱۳۳۱ھ/۱۹۱۲ء کو وفات پائی۔ [3] مولانا عبدالجبار غزنوی کے فتاویٰ ’بستان المحققین لبشارة السائلین‘ کے نام سے جمع کیے گئے ہیں۔ جو ’فتاویٰ غزنویہ‘ کے نام سے بھی معروف ہے۔ اس کی پہلی جلد(۲۵۶ صفحات) امرتسر سے شائع ہوئی تھی۔ اس مجموعہ میں عربی، فارسی اور اردو تینوں زبانوں میں فتاویٰ ہیں۔ عقائد سے متعلق سوالات اہلحدیث نقطہ نظر سے اور بڑی تفصیل کے ساتھ دیے گئے ہیں۔ صفاتِ الٰہی کے بارے میں خاص طور پر غزنوی علماء نے مسلکِ سلف کو بڑے مدلل انداز میں پیش کیا ہے۔ فروعی مسائل میں بھی وہ ہمیشہ عمل بالکتاب والسنۃ کے داعی رہے۔ ان تمام خصوصیات کا اندازہ فتاوی کے اس مجموعے سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ [4] ۷)اِرشاد السائلین فی مسائل الثلاثین از عبدالجبار عمر پوری رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۵۹ء۔ ۱۹۱۶ء) مولاناعبدالجباردہلی کے نواح مظفر نگر کے علاقہ عمر پور میں ۱۲۷۷ھ/۱۸۵۹ء میں پیدا ہوئے۔ والد منشی بدر الدین صاحب ورع و تقویٰ اورمشہور علما میں سے تھے۔ آپ کے اَساتذہ میں مولوی فیض الحسن سہارنپوری اور میاں نذیر حسین محدث دہلوی جیسے بلند پایہ علمی شخصیات شامل ہیں۔ آپ نے کئی مفید کتابیں تصنیف کیں۔ آپ مجلہ’ضیاء السنۃ‘ کلکتہ |