Maktaba Wahhabi

102 - 111
کے اَیڈیٹر بھی رہے۔ مولانا عبدالجباراپنے عصر کے علما اعیان سے تھے۔ با کمال عالمِ دین بلند پایہ مصنف و مقرر، کثیر الدرس مدرس، شعر و سخن سے واقف اور دیگر اصناف علوم دین و ادب پر دسترس رکھتے تھے۔ [1] آپ نے ۵۷ سال کی عمر میں ۱۳۳۴ھ/۱۹۱۶ء میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ [2] آپ سے پوچھے گئے ۳۰ اَہم استفسارات کے جوابات کو ’اِرشاد السائلین فی مسائل الثلاثین‘ کے نام سے مرتب کیا گیا ہے یہ مجموعہ فتاویٰ کلکتہ سے ۱۹۰۲ء میں شائع ہوا۔ [3] ۸)فتاویٰ از مولانا عبدالله غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۴۵ء ۔ ۱۹۱۸ء) مولاناعبداللہ غازی پوری۱۲۶ھ/۱۸۴۵ء کو ضلع اعظم گڑھ میں مئو کے مقام پر پیدا ہوئے۔[4] بارہ سال کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا۔ فارسی و عربی کی بعض درسی کتابیں مولوی محمد قاسم مؤوی سے پڑھیں۔ غازی پور کے’مدرسہ چشم رحمت‘ میں مولانا رحمت الله اور مولانا محمد فاروق چریاکوٹی رحمۃ اللہ علیہ سے درسی کتابوں کی تکمیل کی۔ پھر جونپور تشریف لائے اور مدرسہ ’امامیہ ‘ کے مولانا یوسف سے اِستفادہ کیا۔ [5] اس کے بعد دہلی چلے گئے وہاں حضرت مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے تفسیر، حدیث اور فقہ کی تحصیل کی اور سند حاصل کی۔ ۱۲۹۲ھ/ ۱۸۷۵ء میں حج کیا ، وہیں علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد عباس یمنی رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث کی سند حاصل کی۔ اور ۲۰ سال تک درس و تدریس میں مصروف رہے۔آپ ۱۳۳۷ھ/۱۹۱۹ء کولکھنوٴ میں فوت ہوئے۔ [6] مولانا عبدالله غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ کے مجموعہ فتاویٰ کے دو قلمی نسخے بنارس اور مبارکپور میں موجود ہیں۔ آپ کے فتاویٰ کا مجموعہ ابھی تک زیورِ طبع سے آراستہ نہیں ہوا۔ پہلا نسخہ مسودہ کی شکل میں اور غیر مرتب ہے۔ اس مجموعے میں ان کے وہ فتاویٰ بھی شامل ہیں جو الگ سے چھوٹے چھوٹے رسالوں کی صورت میں طبع ہوئے ہیں، مثلاً
Flag Counter