میں گزری، ان پر مناظرانہ رنگ غالب تھا، جس کے اَثرات ان کے مجموعہ فتاویٰ میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ [1] ۴)’نور العین فتاویٰ الشیخ حسین‘ از شیخ حسین بن محسن انصاری (۱۳۲۷ھ/ ۱۹۰۹ء) میاں نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے معاصر شیخ حسین بن محسن انصاری رحمۃ اللہ علیہ نے نواب صدیق حسن خاں رحمۃ اللہ علیہ کے دور میں یمن سے ہجرت کر کے بھوپال میں سکونت اختیار کر لی اور وہیں اپنا مسندِ درس بچھا رکھا تھا جہاں بہت سے علما و طلبہ ان سے مستفید ہوئے ۔آپ کے ذریعہ برصغیر میں علم حدیث کو بڑا فروغ ہوا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں بہت سے فتاوے اور فقہی رسائل بھی لکھے ۔ آپ کے فتاویٰ کو’نور العین من فتاوٰی الشیخ حسین‘ کے نام سے ان کے فرزند شیخ محمد نے دو جلدوں میں تیار کیاتھا، اس کی صرف پہلی جلد لکھنؤ سے ۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء میں شائع ہوئی۔ ان فتاویٰ کے اَندر شیخ نے ہرایک مسئلہ پر تفصیلی بحث کی ہے، اور پوری تحقیق کے بعد دلائل کی روشنی میں راجح مسلک کی تعیین کی ہے۔ ان میں سے بعض سوالات ان کے شاگرد مولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ نے کئے تھے جن کے جواب الگ سے چھوٹے چھوٹے رسالوں کی شکل میں بھی چھپ چکے ہیں، اور اس مجموعے میں بھی شامل ہیں۔ [2] ۵) فتاوی ازمولانا شمس الحق عظیم آبادی رحمۃاللہ علیہ (۱۸۵۶ء۔۱۹۱۱ء) شمس الحق ڈیانوی رحمۃ اللہ علیہ ۱۲۷۳ھ/۱۸۵۶ء عظیم آباد کے ایک قصبے ڈیانہ میں پیدا ہوئے۔[3] آپ نے اِبتدائی کتب مولوی لطف العلی بہاری، مولوی فضل اللہ لکھنوی، مولانا قاضی بشیر الدین قنوجی رحمۃ اللہ علیہم سے پڑھیں ۔بعد اَزاں آپ نے سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے تفسیر قرآن، سنن دارقطنی اور صحاح ستّہ پڑھیں۔ [4] فراغتِ تعلیم کے بعد آپ نے درس وتدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف وتالیف کا شغل بھی جاری رکھا۔ آپ مصنف کتب کثیرہ ہیں جن میں غایۃ المقصود فی حل سنن ابی داؤد، |