Maktaba Wahhabi

94 - 111
نواب صاحب رحمۃ اللہ علیہ ۲۹جمادی الآخر۱۳۰۷ھ/ ۱۷فروری۱۸۹۰ء کو بھوپال میں انتقال فرما گئے۔[1] والی بھوپال نواب سید صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ کا یہ مجموعہ فتاویٰ 134صفحات پر مشتمل ہے جو دو جلدوں میں مطبع صدیقی ، لاہور نے 1893ء میں شائع کیا۔اس میں کل 42فتاوٰی مرتب کیے گئے ہیں ۔جن میں معاشرے میں مروّجہ بعض رسومات ونظریات جنہیں عقیدہ کا درجہ دے دیاگیاتھا،ان کی شرعی حیثیت واضح کی گئی ہے ۔جیسے فرض نماز کے بعد بغداد کی طرف منہ کر کے ایک قدم چلنا،یا’’شیخ عبدالقادر جیلانی شیئ للہ ‘‘ کا ورد کرنا، انگوٹھے چومنا نیز فقہی مسائل مثلا جمعہ فی القریٰ ، جماعتِ ثانیہ، رفع الیدین اور تقلید کے بارے میں اَہم تحقیقی فتاویٰ شامل ہیں۔ [2] ان مسائل میں نواب صاحب مسلکِ اہلحدیث کو راجح قرار دیتے ہیں اور اَحادیث سے مدلل ثبوت پیش کرتے ہیں۔اگر احادیث میں کوئی ظاہری تعارض ہو تو اس کو رفع کرتے ہوئے اس میں تطبیق کی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔قرآن و سنت کے علاوہ کتبِ فقہ وفتاوی مثلا ہدایہ، شامی اور فتح القدیر وغیرہ سے اکثر استشہادکرتے ہیں۔دورانِ تحقیق مکمل حوالہ جات کا اہتمام کیا گیا ہے۔نواب صاحب کا اَنداز افتا بہت محققانہ ہے۔ 2) فتاویٰ نذیریہ ازسید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۰۵ء۔۱۹۰۲ء) سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ المعروف میاں صاحب۱۲۲۰ھ/۱۸۰۵ء کو بہار کے ضلع مونگھیرسورج گڑھ میں پیدا ہوئے۔ بچپن میں تعلیم کی طرف توجہ کم تھی۔ تیراکی اور کھیل کی طرف رُجحان زیادہ تھا حالانکہ والد خود عالم تھے۔ اِبتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی۔ ۱۲۴۴ھ/۱۸۲۷ء میں دہلی آ گئے اور شاہ اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ میں داخل ہو ئے۔ جہاں تفسیرِحدیث اور دیگر علوم وفنون کی تکمیل کی اور اجازت حدیث شاہ محمد اسحاق مکی سے حاصل کی۔ [3] شاہ محمد اسحاق نے جب مکہ مکرمہ جانے کا قصد کیا تو انہوں نے سید نذیر حسین کو اپنا جانشین مقرر کیا اور فتوٰی دینے کی اِجازت دی۔یہاں آپ نے علوم دین ، تفسیر، حدیث اور
Flag Counter