تبع تابعین) کی آرا سامنے رکھتے ہیں اور دلائل کی رو سے جو قول راجح ہوتا ہے، اس کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں۔ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہوتے کہ اِجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ ان کے یہاں اَحادیث و آثار سے استدلال کرتے وقت اس بات کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے کہ پہلے اُن کی چھان پھٹک کر لی جائے، اور صرف صحیح اَحادیث پر اعتماد کیا جائے۔ حدیث کے علاوہ فقہ کی کتب پر بھی ان کی بڑی گہری نظر ہے اور بشمول حنفی مسلک اور دوسرے مسالک کی فقہی کتابوں سے جا بجا اِستشہادات دیئے جاتے ہیں جن سے ان کی وسعتِ اطلاع کا علم ہوتا ہے۔اُنہوں نے شروع سے مخصوص فقہی مسائل کے بجائے ’فقہِ حدیث‘ کی دعوت دی ہے، اور کسی ایک فقہ پر اکتفا کرنے کے بجائے انہوں نے مختلف فقہی مذاہب کے تقابلی مطالعہ کی سفارش کی ہے۔ یہ رجحان اُن کے فتاویٰ اور دوسری تمام فقہی تالیفا ت میں نظر آتا ہے۔ علماے اہل حدیث نے شرعی مسائل کے حل کے لیے جو سعی اور کوششیں کی ہیں اگرچہ اس مقالہ میں اتنی وسعت نہیں کہ اس کی مکمل تفصیل کا اِحاطہ کیا جائے کیونکہ ہر دور میں مسلکی اخبارات و جرائد میں قارئین کےاستفسارات کے بارے فتاوٰی دیئے جاتے رہے ہیں، ان کا اِحصا ممکن نہیں۔یہاں مختصراً مطبوع مجموعہ ہائے فتاوی کا تعارف پیش کیا جا رہا ہے: 1) مجموعہ فتاوٰی از نواب صدیق حسن خان رحمۃ اللہ علیہ (۱۸۳۲ء۔ ۱۸۹۰ء) نواب سید صدیق حسن خاں قنوجی رحمۃ اللہ علیہ ۱۹جمادی الآخر ۱۲۴۸ھ/۱۸۳۲ء کو بریلی میں پیدا ہوئے ۔ آپ نسباًحسینی سادات میں سے تھے۔[1] نواب صاحب ابھی پانچ سال کے تھے کہ ان کے والد مولانا سید اولاد حسن خاں کا انتقا ل ہوگیا۔ تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا، ان کے پہلے اُستاد ان کے بڑے بھائی مولانا سید اَحمد حسن عرشی تھے۔ اس کے بعدعربی و فارسی کی ابتدائی کتابیں مولوی سید احمد علی فرخ آبادی، مولوی محمد حسین شاہ جہان پوری، محمد مراد بخاری اور مولوی محبّ الله پانی پتی رحمۃ اللہ علیہم سے پڑھیں۔ اس کے بعددہلی تشریف لے گئے اور مفتی صدر الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک سال ۸ ماہ رہ کر علوم اسلامیہ میں استفادہ کیا۔ [2] |