Maktaba Wahhabi

91 - 111
’’اس تحریک کا یہ فائدہ ہوا کہ مدتوں کا زنگ طبیعتوں سے دور ہوا اور جو یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ اب تحقیق کا دروازہ بند اور اجتہاد کا راستہ مسدود ہو چکا ہے، رفع ہو گیا اور لوگ از سرِ نو تحقیق و کاوش کے عادی ہونے لگے ۔ قرآن پاک اور اَحادیثِ مبارکہ سے دلائل کی خُو پیدا ہوئی اور قیل و قال کے مکدّر گڑھوں کی بجائے ہدایت کے اَصلی سر چشمہ مصفّا کی طرف واپسی ہوئی۔‘‘[1] بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں تحریک اہل حدیث کو عوامی تحریک بنانے کی کوشش شروع ہوئی اور دہلی میں ’آل انڈیا اہل حدیث کانفرنس‘ کے نام سے ایک ملک گیر، تنظیمی و تبلیغی ادارہ قائم کیا گیا جس نے مکتبوں اور درس گاہوں کے قیام، مبلغین کے وعظ وارشادات اور جلسوں کے انعقاد کے ذریعے پورے برصغیرمیں تحریک ومسلک اہل حدیث کو عام کر دیا۔ بہرحال اس تحریک کے جو اَثرات پیدا ہوئے اور اس زمانہ سے آج تک ہمارے دورِ ادبار کی ساکن سطح میں اس سے جو جنبش ہوئی وہ ہمارے لیے بجائے خود مفید اور لائق شکریہ ہے۔ بہت سی بدعتوں کا استیصال ہوا، توحید کی حقیقت نکھاری گئی، قرآن پاک کی تعلیم وتفہیم کا آغاز ہوا۔ قرآن پاک سے ہمارا رشتہ براہِ راست دوبارہ جوڑا گیا۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تدریس اور تالیف و اشاعت کی کوششیں کامیاب ہوئیں۔ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ تمام عالم اسلام میں ہندوستان ہی کو صرف اس تحریک کی بدولت یہ سعادت نصیب ہوئی۔ نیز فقہ کے بہت سے مسائل کی چھان بین ہوئی، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دلوں سے اِتباع سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو جذبہ گم ہوگیا تھا، وہ سالہا سال کی اس محنتِ شاقہ سے دوبارہ پیدا ہو گیا۔ اَہل حدیث کے اُصولِ فتاویٰ علماے اہل حدیث کے فتاویٰ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں اُن کے یہاں فتویٰ نویسی کا جو اَنداز نظر آتا ہے وہ مسلکی فتویٰ نویسی کے اَنداز سے بالکل مختلف ہے۔ وہ کسی ایک امام کی تقلید کی بجائے تمام اَئمہ کے اَقوال سے استفادہ کرتے ہیں۔ مسائل کی تحقیق کے وقت یہ پہلے براہِ راست کتاب و سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں، پھر سلف صالحین(صحابہ، تابعین،
Flag Counter