مرجع و ماویٰ کتاب الله اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث و سنت تھا۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اِرشاد: (( لا تزال طائفة من أمتي ظاهرین على الحق)) [1] کے مطابق تقلید و جمود کے رواج پا جانے کے باوجود یہاں ہردور میں خال خال ہستیاں ایسی رہی ہیں جنہوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام کے نقش قدم پر کتاب و سنت کو ہی دین کی اَصل بنیاد قرار دیا۔ جیسا کہ المقدسی(م۳۷۵ھ) نے اقلیم سندھ میں اکثریت کو مسلکِ اَصحاب الحدیث کا پابند بتایا ہے۔[2] امام ابن حزم(م۴۵۶ھ/۱۰۶۴ء) کے نزدیک بھی اس علاقے میں طالبانِ قرآن و سنت کی اکثریت تھی جنہیں وہ ’ظاہری‘ کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔[3] مغلوں کے آخری دور میں حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی(م۱۱۷۶ھ/۱۷۶۲ء) اور ان کے خاندان نے تحریکِ اہل حدیث کو بڑی تقویت پہنچائی۔[4] ان کے بعد تعلیمی و تدریسی خدمات کے ساتھ عملی و نظری اعتبار سے حضرت مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ المعروف بہ شیخ الکل حضرت میاں صاحب (م۱۳۲۰ھ/ ۱۹۰۲ء) جانشین شاہ محمد اسحٰق محدث دہلوی نے اہل حدیث مکتبِ فکر کو بڑا رواج دیا۔ [5] بعد اَزاں ان کے سینکڑوں تلامذہ نے یہ تحریک برصغیر کے گوشے گوشے میں پہنچا دی۔ اُنیسویں صدی کے نصف آخر اور بیسویں صدی کے رُبع اوّل میں عالم اسلام کے اندر حدیث دان علما بہت کم نظر آتے ہیں، لیکن برصغیر پاک و ہند میں حدیث کا چرچا تھا۔ بلکہ یہ ملک طالبانِ علم حدیث کا مرجع و ماویٰ بنا ہوا تھا۔ ترویج علم حدیث اور اَحیائے سنت کے سلسلہ میں علامہ رشید رضا مصری (م۱۳۵۴ھ/ ۱۹۳۵ء) نے بھی علمائے اہل حدیث کی گراں قدر خدمات کا اعتراف شاندار الفاظ میں کیا۔ [6] مولانا سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۹۵۳ء) تحریک اہل حدیث کے بارے میں ر قم طراز ہیں: |