برصغیر میں علمائے اہل حدیث اور فتاویٰ نویسی اگرچہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد میں بھی فتاویٰ کے سلسلہ میں مجتہدین میں بعض مسائل میں اختلافِ رائے موجود تھا۔ دوسری صدی ہجری میں اختلاف کی اس خلیج میں مزید وسعت پیدا ہو گئی اور اس کے نتیجہ میں فقہا دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے۔ ان میں سے ایک اہل حدیث کا گروہ تھا جو کتاب الله، سنتِ رسول الله اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فتویٰ کی بنیاد پر فتویٰ دیتا تھا۔ اس گروہ میں علماے حجاز کی غالب اکثریت شامل تھی، دوسرا گروہ اہل الرائے کا تھا جونصوصِ شرعیہ کی تشریح ان کے عقلی معنیٰ و مفہوم کی روشنی میں کرنے پر زور دیتا تھا۔ اس گروہ میں فقہاے عراق کی غالب اکثریت شامل تھی۔ [1] اَوّل الذکر ’اہل حدیث‘ اہل سنت مسلمانوں کا وہ گروہ ہے جو قرآن مجید کے ساتھ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اِسلامی شریعت کا حقیقی سر چشمہ قرار دیتا ہے اور دین و شریعت کے معاملات میں تقلیدِ شخصی کا قائل نہیں۔ اس گروہ کے نزدیک اسلام کے اَوّلین دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم کا بھی یہی مسلک تھا۔ چنانچہ اس گروہ نے اپنے اَفکار ونظریات اور اپنے فتاویٰ و مسائل کی بنیاد قیل وقال اور آراء الرجال کے بجائے ہمیشہ کتاب الله، سنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فتاویٰ پر رکھی، سلفِ اُمت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین کے بعد بھی ہر دور میں ایسے بے شمار اَساطین علم وفضل رہے ہیں جو حاملین کتاب و سنت کی اسی سلک مروارید ‘‘منسلک ہیں اور ان کی کتب اور فتاویٰ کے مجموعوں سے آج بھی دنیا اکتسابِِ ضیا کر رہی ہے۔ امام احمد بن حنبل، امام بخاری، شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد حافظ ابن قیم، حافظ ابن حجر عسقلانی، شیخ الاسلام امام محمد بن عبدالوہاب،محمد بن علی شوکانی، شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہم اور دیگر اَئمہ و فقہاے کرام اسی گروہ کے تابندہ ستارے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند میں تحریکِ اہل حدیث ابتدائی عہد سے ہی موجود رہی۔[2] جب اسلام کا اِبتدائی قافلہ برصغیر میں وارد ہوا تو اس وقت تقلیدی مسالک کا کہیں وجود نہ تھا۔ تمام کا |