رہے، اس وقت تک اُس کی اتباع کی جاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ’’تمہارے بہترین حکمران وہ ہیں کہ تم اُن سے محبت کرو اور وہ تم سے محبت کریں اور تمہارے بدترین حکمران وہ ہیں کہ تم اُن سے نفرت کرو اور وہ تم سے نفرت کریں۔‘‘ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ جب ایسے حکمران آئیں جن سے ہم نفرت کریں گے ،تو کیاہم اُن سے قتال نہ کریں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: (( لا، ما أقاموا الصلاة)) ’’اس وقت تک نہیں جب تک وہ خود بھی نماز پڑھیں اور دوسرے کو نماز پڑھنے کی تلقین کرتے رہیں۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ اپنے اوپر اللہ کے قانون کونافذ رکھیں گے، اس وقت تک ان کی اطاعت ہوگی ،اگر وہ خود اللہ کے قانون پر نہیں چلتے تو پھر ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔اسلامی تاریخ میں اسی نوعیت کایک اور اہم واقعہ ملتا ہے۔ کہ دورِ نبوی میں ایک لشکر کے سالار نے شریک صحابہ کو حکم دیا کہ آگ میں چھلانگیں لگا دو، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آگ میں چھلانگیں نہیں لگائیں۔جب صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچےاور بتایاکہ اس طرح ہمارے قائد نے آگ میں کودنے کا حکم دیا تھا اور ہم اس لیے نہیں کودے کہ اس آگ سے بچنے کے لیے ہی تو ہم آپ کے متبع بنے اور یہ پھر ہمیں آگ میں بھیج رہے ہیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تھا: لا طاعة لمخلوق في معصية خالق تم نے درست کیا ہے ، اللہ کی نافرمانی میں حکم ران کی اطاعت اسلام کا کوئی مطالبہ نہیں ۔ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں ہے۔‘‘ اگر حکمران اللہ کا قانون نافذ کرتاہے تو محترم ہے او رہمارے لیے اس کا احترام واجب ہے اور اگر وہ اس کو نافذ نہیں کرتا تو پھرنہ تو وہ محترم رہ جاتا ہے اور نہ ہی ہمارے اوپر اس کی اطاعت واجب ہے۔ 10. سوال: حافظ صاحب! یہ فرمائیے کہ بانیانِ پاکستان کا اس بارے میں کیا موقف تھا؟ ان کی نظر میں شریعت کا کیا مقام تھا اور وہ قانون کی برتری کو کس نظر سے دیکھتے تھے ؟ جواب : ڈاکٹرعلامہ اقبال او رمحمد علی جناح دونوں قانون کے طالب علم تھے ۔دونوں نے قانون کی اعلیٰ ترین تعلیم یعنی بیرسٹری کی ہوئی تھی،بلکہ محمد علی جناح کے بارے میں یہ بات معروف ہے کہ قیام پاکستان سے قبل مسلمانوں میں ان جیسا قابل اور نامور وکیل اور نہیں |