اورنگزیب عالمگیرجیسے لوگ عدالتوں کے سامنے پیش ہوتے رہے۔ مسلمانوں کے حکمران ہی نہیں ، ان کے سپہ سالار بھی عدالتوں کے حکم کے آگے آنکھ نہیں اُٹھاتے تھے۔میں یہاں اسلامی تاریخ سے احترام قانون کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوگا کہ ماضی میں مسلمانوں کا عدالتوں سے کیا رویہ رہا ۔نامور مسلم جرنیل قتیبہ بن مسلم نے جب سمرقند پر قبضہ کیا اور سمرقند میں مسلمان غالب ہوگئے تواہل سمرقند نے ، جو کافر تھے، مسلمانوں کی عدالت میں یہ کیس پیش کردیا کہ قتیبہ بن مسلم نے ہمیں ، اسلامی نظام کے مطابق وہ تین آپشن (اسلام قبول کرلو ،یا جزیہ دو ،یا پھر جنگ کرو )پیش نہیں کیے جوہر مسلمان سپہ سالارپر پیش کرنا فرض ہیں۔ اسی لشکر اسلامی میں موجود قاضی نے قتیبہ بن مسلم اور سمرقند کے سابقہ قائد کو بلوا لیا۔ اور قاضی نے قتیبہ بن مسلم سے پوچھا کہ کیا آپ نے یہ دعوت ان کے سامنے پیش کی تھی؟اُنہوں نے کہا کہ میں نے ایسا نہیں کیا ،اس پر قاضی نے یہ فیصلہ دیا کہ تم اپنی ساری فوجوں کو حکم دو کہ اس علاقے سے فوراً باہر نکل آئیں۔قتیبہ بن مسلم کے حکم سے تمام افواج باہر نکل آئیں اور تاریخ نے یہ بھی دیکھا کہ جب وہ باہر نکل رہے تھے تو وہاں کے کفار اُن کے کپڑوں سے پکڑ کر انہیں واپس کھینچ رہے تھے کہ اتنے منصف اور عادل لوگوں سے ہم کیوں کرمحروم کئے جائیں؟ قاضی کے اس منصفانہ فیصلےکا یہ نتیجہ نکلا کہ پورا شہر مسلمان ہوگیا۔اسلامی تاریخ ایسے عظیم الشان واقعات سے بھری پڑی ہے۔کوئی بھی قوم تب عظمت حاصل کرتی ہے ، جب اُس میں قانون کی بالاتر ی موجود ہو،اور جب انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے ہوں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان میں بیان کرچکاہوں کہ آپ نے کہا کہ سابقہ قوموں کی ہلاکت کی وجہ ہی یہ تھی کہ ان کے ہاں قانون کی نظر میں مجبور وضعیف اور مقتدر وطاقتور برابر نہیں تھے۔ 9. سوال: اسلام میں ریاست کےسربراہ کی حیثیت کیا ہے؟اس کے حقوق و فرائض کی وضاحت فرما دیجیے۔ جواب : اسلام میں خلیفہ کی ذاتی لحاظ سے دوسروں پر کوئی برتری نہیں ہے۔دراصل اللہ کا قانون کسی فرد کے ذریعے نافذ ہونا ہے اور وہ فرد خلیفۃ المسلمین ہوتا ہے، خلیفۃ المسلمین مسلمانوں کا دینی وسیاسی قائد ہوتا ہے۔ خلیفۃ المسلمین جب تک اللہ کے دین کی اتباع کرواتا |