اُن کی ہے۔سو اُنہوں نے گواہی کےلیے اپنے غلام قنبر کو پیش کردیا۔ قاضی شریح نے کہا کہ ایک گواہی تو ہوگئی لیکن آپ کو دو گواہیاں پیش کرنا ہیں۔ دوسری گواہی کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دو بیٹوں حسن وحسین رضی اللہ عنہما کو پیش کیا ۔ قاضی شریح نے کہا: اے امیرالمؤمنین! اسلام کے نظام عدل میں باپ کے حق میں بیٹے کی گواہی قابل قبول نہیں ہے۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ دونوں بیٹے تو وہ ہیں جن کی شان زبان رسالت سے بیان ہوئی ہے کہ دونوں نوجوانان جنت کے سردار ہیں۔ قاضی شریح نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کو تسلیم کرنے کے باوجود، اس کو ان کی فضیلت ہی پر محمول کیا اور کہا کہ اس سے شرع اسلامی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔چنانچہ قاضی شریح نے باپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں اُن کے دو بیٹوں کی گواہی قبول نہ کی اور فیصلہ کردیا کہ یہ زرہ یہودی کے پاس ہی رہے گی ۔ جب یہودی نے یہ بات سنی تو بے ساختہ بول اُٹھا:واللہ! یہ تو پیغمبرانہ عدل ہے۔ ایسا عدل تو میں نے کبھی نہیں دیکھا ،چنانچہ یہودی انصاف پر مبنی فیصلہ دیکھ کر مسلمان ہوگیا۔ان مثالوں سے بخوبی واضح ہو تا ہے کہ خلیفہ یا حکمران کو کسی عام معاملے میں معمولی سا بھی امتیاز حاصل نہیں ہے ،کجا یہ کہ ان کو قانون سے استثنیٰ حاصل ہو۔ صدارتی استثنا اور پاکستانی آئین 6. سوال: ڈاکٹرصاحب! ایک طرف کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے آئین کےمطابق کوئی قانون اسلام کے خلاف نہیں بن سکتا، جبکہ دوسری طرف نہ صرف اس طرح کے قانون بن رہے بلکہ اُن پر عمل بھی ہورہا ہے ؟اس کےبارے میں آپ کیا فرمائیں گے؟ جواب : آئینی لحاظ سے اسلام پاکستان میں بالا تر ین ہے ۔ آئین کی دفعہ 227 میں یہ بات موجود ہے کہ کوئی قانون خلاف اسلام نہیں بنے گا۔ پاکستان کا سرکاری مذہب بھی اسلام ہے۔ خود ہمارے صدر مملکت جو اس استثنیٰ کا مطالبہ کرتے ہیں، یہ حلف بھی اُٹھا چکے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدرکوتوحید باری تعالیٰ پر ایمان لانا ہے،قرآن مجید کے آخری الہامی کتاب ہونے پر ایمان لانا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر بھی ایمان لانا ہے اور ساتھ ساتھ اس حلف میں یہ بات شامل ہےکہ قرآن مجیدکے تمام تقاضے اور تعلیمات پر بھی وہ |