اُکھڑوا دیا ہے تو حضرت عمر بن خطاب سے فرمایا کہ اس پرنالے کو اس مقام پر رسول اللہ نے نصب کروایا تھا، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ یہ سنتے ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب شدید رنج کا شکار ہوگئے اور اپنے حکم پر افسوس کا اظہار کرنے لگے۔خلیفہ راشد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اے عباس رضی اللہ عنہ ! تم لازماً میری کمر پر چڑھ کر اس پرنالے کو وہیں نصب کردو جہاں سے اس کو اُکھاڑا گیا ہے۔ پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ امیرالمؤ منین کی کمرپر چڑھے اور اس پرنالے کو وہیں پر لگا دیا جہاں سے اُکھاڑا گیا تھا۔ ایسے ہی سیدناعمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کی سیرت میں ایک اور اہم واقعہ آتاہے۔آپ رضی اللہ عنہ جب خلیفہ تھےتو کسی معاملے میں سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کا اُن سے اختلاف ہوگیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب اپنے بارے میں خود فیصلہ کرنے کی بجائے قاضی وقت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس پیش ہوئے۔ مدعی اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ تھےاور مدعا علیہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے۔ اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ نے جب دعویٰ کیا تو اپنے دعوے پر اُنہوں نے ایک دلیل پیش کی۔اور شرعی اُصول یہ ہے کہ جب کسی کے خلاف دعویٰ کیا جاتا ہےتو وہ دلیل سے تردید کرے، ورنہ اسے قسم کھانا پڑتی ہے۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے امیرالمؤمنین کا احترام کرتے ہوئے اُن سے قسم کا مطالبہ نہ کیا، اور ان کے انکار کو ہی کافی جانا کہ خلیفہ نے چونکہ انکار کردیا ہے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا ،بس یہی کافی ہے۔جب قاضی زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اتنا معمولی سا امتیاز برتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ قاضی سے ناراض ہوئے اور خود قسم اُٹھائی کہ مجھ پر مدعا علیہ ہونے کے ناطے یہ واجب تھاکہ میں قسم اُٹھاؤں اور کہا کہ اے زید رضی اللہ عنہ ! تم اس وقت تک منصبِ قضا کےلائق نہیں ہوسکتے جب تک تمہارے نزدیک ایک خلیفہ اور عام مسلمان دونوں برابر نہ ہوجائیں۔ خلیفہ راشد سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب اسلام میں نظام عدل کو بہت زیادہ جاننے والے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (( أقضاهم علي)) ’’ اے میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ! تم میں سے سب سے زیادہ عدل وقضاکے ماہر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘ تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں اُن کی ایک زرہ گم ہوگئی۔وہ زرہ اُنہوں نے ایک یہودی کے جسم پر دیکھی۔ تو یہ قضیہ قاضی شریح کے سامنے: جو اس وقت قاضی تھے، پیش کردیا۔قاضی شریح نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ اپنا دعویٰ ثابت کیجئے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ پر شرعاً واجب تھا کہ وہ گواہ پیش کرتے کہ یہ زرہ کیسے |