Maktaba Wahhabi

74 - 111
چاہیں تو کسی کی سزا کو معاف نہیں کرسکتے۔لیکن ہمارے صدرصاحب کو یہ قانونی حق حاصل ہے وہ جس کو چاہیں معاف کر دیں چاہے وہ قاتل ہی کیوں نہ ہو۔جب کہ ہمیں سیرتِ طیبہ سے پتہ چلتا ہے کہ قانون کی نظر میں تمام انسان برابر ہیں اور کسی کو استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ دورِخلافت راشدہ میں استثنا کا مسئلہ 5. سوال: ڈاکٹر صاحب !آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد خلفاے اَربعہ کے ہاتھ میں بھی اقتدار کی زمام کار آئی۔ کیا اُن سے کوئی مثال ایسی ملتی ہے کہ اُنہوں نے قانون کے نفاذمیں تفریق سے کام لیا ہو؟ جواب:خلفاے اَربعہ سے بھی ایسی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔حالانکہ خلیفہ راشد کامقام آج کے صدر سے بہت بلند ہے۔ خلیفہ راشد مسلمانوں کا دینی سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ پوری ملتِ اسلامیہ کا سیاسی حاکم ہوتا ہے، نہ کہ آج کے صدرکی طرح کسی ایک ملک یا خطہ کا حکمران۔خلفاے اربعہ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو وہ نہ صرف عدالت کے سامنے پیش ہوئے بلکہ عدالت نے جو فیصلہ کیا، وہ فیصلہ اُنہوں نے من و عن قبول کیا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب خلافت کا خطبہ دیا تو فرمایا: اگر میں اللہ کے دین پر قائم رہوں تو درست، اور اگر اس میں کجی اختیار کروں تو تم مسلمانوں کا فرض ہے کہ اپنی تلواروں کے ساتھ مجھے سیدھا کردینا او راللہ کی شریعت پر مجھے چلانا کیونکہ اللہ کی شریعت پر چل کر ہی میرا یہ حق بنتا ہے کہ میں تمہیں اللہ کی شریعت کی بات کہوں۔ سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ عظیم الشان خلیفہ راشدہیں۔آپ کے دور کا واقعہ ہے کہ آپ ایک بار جمعہ پڑھانے کے لیے جارہے تھےکہ راستے میں مدینہ منورہ کی گلیوں سے گزرتے ہوئے ایک پرنالے کے پاس سے آپ کا گزر ہوا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے گھر کے اوپر لگا ہوا تھا ۔ پرنالے سے گندا پانی گر رہا تھا۔ جب آپ رضی اللہ عنہ پرنالے کے پاس سے گزرےتو آپ کے کپڑوں پر گندے پانی کے چھینٹے پڑ گئے۔عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے حکم دیا کہ یہ پرنالہ راستے میں گزرنے والوں کے حق کو متاثر کررہا ہے،اس لیے اس کو اُکھاڑ دیا جائے ،چنانچہ حکم کی تعمیل ہوئی۔سیدنا عباس کو جب یہ پتہ چلا کہ امیرالمؤمنین نے پرنالہ
Flag Counter