جہاں تک حاکم وقت ہونے کے ناطے کسی مجرم کو معاف کرنے کا تعلق ہے تو ہمیں یہ مثال بھی شرع اسلامی میں ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار حاصل نہیں تھا کہ آپ کسی کی سزا معاف کر سکیں، جس طرح ہمارے ہاں صدر کو یہ اختیار حاصل ہے۔ ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک واقعہ پیش کیاگیا۔ قریش کے قبیلے بنومخزوم کی ایک عورت تھی جس کا نام فاطمہ تھا ۔اس عورت نے چوری کی تھی اور اس کا کیس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیاگیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں یہ فیصلہ کیا کہ اس عورت کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ قریشی لوگوں کو یہ بات بہت بھاری لگی اوراُنہوں نے کہا: یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ قریش کے قبیلے کی ایک عورت کا ہاتھ کاٹا جائے، اس سے قریش کی سیادت وفضیلت ختم ہوکررہ جائے گی اور عرب میں اُن کی ناک کٹ جائے گی۔ اُنہوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ ہماری سفارش کیجئے۔حضرت اُسامہ نے سفارش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضی سے فرمایا: (( أتشفع في حد من حدود الله؟)) ’’اے اُسامہ! کیا تم اللہ کی حد میں سفارش کرتے ہو؟‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر نبوی پر خطبہ دیا ۔ فرمایا: (( إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا)) [1] ’’وہ لوگ جو تم سے پہلے تھے ، اسی وجہ سے ہلاک ہوگئے کہ جب اُن میں سے کوئی معزز آدمی چوری کیا کرتا تو اُس کو چھوڑ دیتے تھے۔اور جب کوئی کمزوریا عام آدمی چوری کرتا تو اُس پر اللہ کی حد کو قائم کرتے تھے۔ اللہ کی قسم ! اگر میری بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بھی چوری کرتی تو میں اُس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا۔‘‘ اس سے معلوم ہواکہ اسلام کی رو سے نہ تو کوئی بڑے سے بڑا شخص قانون سے مستثنیٰ ہے اور نہ ہی وہ کسی مجرم کو سزا سے مستثنیٰ کرسکتا ہے۔حتیٰ کہ اگر محبوبِ ربانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی |