Maktaba Wahhabi

72 - 111
دَرَجٰتٍ1 ﴾ (البقرة: 253) دوسری جگہ فرمایا: ﴿ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ1﴾ (الحجرات: 13) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( الحسن والحسین سیدا شباب أهل الجنة)) (مسند أحمد: 11012) ’’ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ دونوں اہل جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔‘‘ یہ فضیلت کی صورت ہےلیکن فضیلت کا مطلب یہ نہیں کہ اَب قانون کسی صاحبِ فضلیت کو ایک نظر سے دیکھے گا اور عام آدمی کو دوسری نظر سے۔ کوئی بھی انسان جو جرم کا اِرتکاب کرے گا، اس پر خالق کا قانون برابر کی سطح پر نافذ ہو گا۔ یعنی اسلام میں فضیلت ومراتب کا تحفظ موجود ہے لیکن جرم کا تحفظ بالکل نہیں ہے ۔یہ دونوں چیزیں علیحدہ ہیں۔ مجرم کو کسی فضیلت کی بنا پر اسلام کوئی تحفظ نہیں دیتا ہے۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں استثنا کا مسئلہ 4. سوال : ڈاکٹر صاحب! درپیش مسئلہ میں سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مثالیں ہمیں مل سکتی ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام آدمی کی طرح قانون کا برابر احترام کیا ہو ؟ جواب : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ قانون کے نفاذ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کو کبھی مستثنیٰ نہیں کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا اور فرمایا:کسی شخص کا کوئی حق اگر میرے ذمّے ہے تو میں دینے کے لیے آمادہ ہوں۔اُسید نامی ایک دیہاتی اُٹھا اور کہنے لگاکہ یا رسول اللہ! مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ لینا ہے، تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ششدر رہ گئےکہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ شخص بدلہ لے گا؟ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کو بدلہ کے لیے اس کے سامنے پیش کیا ۔ وہ بدوکہنے لگا :اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !جب آپ نےمجھے سرزنش کی تھی تواس وقت میرا جسم ننگا تھا ، آپ بھی اپنی چادر کندھے سے اُتار دیجئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےچادرِ مبارک اُتار دی۔ تواس دیہاتی نے آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کو چوم لیا اورکہاکہ بدلہ لینا تو بہانہ تھا، میں تو دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اَطہر کو چھونا چاہتا تھا۔اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے آپ کو بدلہ کے لئے پیش کردیا اور پتہ چلا کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔
Flag Counter