والے سے راضی ہو گئے ۔لیکن وہ کون ہیں جو آسمان والے کے فیصلے سے راضی ہو گئے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس اُمت کی تاریخ ایک ہے،اس کا پیغام اور نظام بھی ایک ہے افسوس کہ یہ اُمت ایک نہیں۔ جب تک اس خلافت کے راستہ میں پہلی اور آخری رکاوٹ یعنی اس اُمت کے انتشار کو وحدانیت سے نہ بدلا جائے گا، ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ علمائے اُمت اس بات کو سوچ لیں اور قیامت کے دن اپنے احتساب اور مسئولیت کےلئے تیار ہو جائیں کہ ان کے ایسے فقہی اختلافات کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کتاب و سنت پر لوگو ں کو قائم کر کے گئے تھے اور جسے قران نے کہا تھا کہ ﴿ وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ1ۗ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا1ۚ﴾ [1] تم نے یہ معیار چھوڑ کر اپنی ذہنی علاقائی اور طرح طر ح کے تعصبات اور یہ پیغام کیوں اختیار کر لئے ،سوچ لیجئے کہ اس دن آ پ کے پاس کیا جواب ہو گا،اگر آپ اس جواب دہی کے لئے تیار ہو جائیں تو آج ہمارے زمانے میں انسان پھر انسانی غلامی سے نجات پا لے گااور انسانوں کے لئے کائنات کے اندر ایک ایسا نظام پیدا ہو جائے گا، خلافت کے ذریعہ ایک ایسی قوت اور مساوات کی بنیاد پڑ جائے گی کہ زمیں خزانوں کو اُگل دے گی ۔آسمان برکات نازل کر دے گااور اُمت ایک دفعہ پھر( جیسا کہ قران مجید میں کہا گیا کہ )خوف کے بعد امن کی حالت میں تبدیل ہو جائے گی۔سورۂ نور کے اندر ایمان اور اعمالِ صالحہ کے ساتھ جس استخلاف فی الأرض کا وعدہ کیا گیا ہے، اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ اس نظام کو اپنانے کے بعد جو پہلا انعام انسانیت کو ملے گا،وہ یہی ہے کہ جس خوف میں آج ہم مبتلا ہیں اس سے نجات مل جائے گی اور امن کی حالت آجائے گی۔ صنعاء سے حضر موت تک ایک بڑھیا سونا اٹھائے آئے گی کوئی میلی آنکھ سے دیکھنے والا نہیں ہو گا جب کہ فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ ایک دکان سے گھر تک جانے کا راستہ بھی محفوظ نہیں۔ آج ہمیں اپنی اس شکستہ حالی پر سوچنے کی ضرورت ہے ۔اور یہ ملک پاکستان اس خلافت کا سب سے بڑا مرکز ہے اس لئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ مدینہ کی اسلامی ریاست کے بعد، ہم نے اللہ سے ایک عہد کیا ہے کہ اس ملک کے اندر کتاب و سنت کے نظام کو قائم کریں گے ۔ایک نفاق ،تضاد اور تناقض ہے |