کے موقع پر پیش کیا اور قیامت تک کے لئے یہ منشور ایک عالمگیر تصور پیش کرتا ہے ۔لیکن آج ہم علاقائی ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کو ایک عقیدہ کی بنیاد پر قائم کیا ؏ اسلام تیرا دیس ہے تو مصطفوی ہے ! دنیا کے اندر اسلام وہ پہلا دین تھا جس نے قومیتوں کو لسانی، علاقائی اور جغرافیائی تصورات ختم کر کے ایک عقیدے کے تصورات میں پرو دیا۔ ایک ملت ملة أبیکم إبراهیم کا تصور پیش کیا۔ دنیا کے اندر یہ خلافت کا تصور آج اس عالمگیر حوالہ سے ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ وہ نظام ہے کہ جس کے اندر کسی اپوزیشن یا اصحابِ اقتدار کا کوئی تصور نہیں۔ خلافتِ راشدہ ایک منظم جماعت کا نام تھا، وہ نظام یا جماعت ایک کتاب و سنت کے نظام کے ساتھ منسلک تھی۔یہ بات کون نہیں جانتا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ایک جماعت اور ایک حزب اللہ کے اندر شامل ومنحصر تھے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ کتاب و سنت کی بنیاد پر اُن تعصبات کو ختم کریں۔ آج اگر ہم دیکھیں کہ وہ کون سی رکاوٹیں ہیں کہ دنیا کے اندر خلافت جیسا نظام اور شریعت جیسا قانون، حجۃ الوداع جیسا منشور انسانیت کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو رہا۔ اس کی تین وجوہات سامنے آتی ہیں: سب سے پہلے یہ کہ جب تک ہم اپنے علوم کو ہر قسم کے یونانی ، مجوسی ایرانی اور ہندی تصور سے پاک کر کے اس دین کو الدین الخالص نہیں بنائیں گے اس وقت تک یہ پیغام ’پیغامِ خالص‘ نہیں بن سکتا۔ہم اپنےدین کے تقاضوں کے مطابق قران و سنت پر جمع ہوجائیں اور یہ اُمت اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کہلوانے کے لئے کتاب و سنت پر جمع ہو جائے۔ یہ عصبیتیں اور فرقہ وارانہ تصورات چھوڑ دیں۔ صحابہ ایک تھے ،صدیق ِاکبر رضی اللہ عنہ نبی اکر م صلی اللہ علیہ وسلم کے سسر تھے، آپ کی بیٹی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان کے گھر میں ہیں،عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیٹی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تھی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھیں، اسی طرح حضرت ام عمیس رضی اللہ عنہا کبھی وہ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے گھر میں ہیں اور کبھی صدیق ِاکبر رضی اللہ عنہ کے گھروالی ہیں اور کبھی علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں ہیں۔ ان کے بچوں کے نام ایک جیسے ہیں۔ آپس میں﴿ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ﴾ کی تصویر بنے ہیں ۔قران کہتا ہے کہ وہ لوگ ﴿رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ ﴾،﴿ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ ﴾ اور ﴿وَ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ﴾ ہیں اور کبھی ﴿ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ ﴾ یعنی آسمان والا ان سے راضی ہو گیا اور یہ آسمان |