امریکہ کی قوت بھی نہیں روک سکے گی، یہ راستہ کوئی سازش بھی نہیں روک سکے گی۔ان شاء اللہ جس اُمت کو فقر اور اقتصاد کا تصور دیا گیا ہے اوربتایا گیا ہے کہ "الاقتصاد نصف المعيشة" تمہاری معیشت میانہ روی کی معیشت ہونی چاہئے، آج ہم افراط و تفریط کا شکار ہوتے چلے جارہے ہیں۔ یہ خلافت کا نظام"الإقتصاد نصف المعيشة" کی تصویر تھی، 22 لاکھ مربع میل کا تاجدار اپنے جسم پر پیوند پہنے ہوئے ہے۔ اپنی پشت پر رات کو گشت کرتے ہوئے خوراک کا سامان اُٹھائے ہوئے راتوں کو پہرا دے رہا ہے،امر بالمعروف کے ایک ایک پہلو کی نگہبانی کر رہا ہے اور نہی عن المنکر کی صورتیں وضع کر رہا ہے، عالم کے اندر پیدا کی ہوئی خرابیوں کو دیکھ رہا ہے، اُصولِ مشاورت کو اپنی انتہاؤں تک پہنچا رہا ہے۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقتی مصالح کے تحت مالِ غنیمت تقسیم کیا تھا، لیکن عراق کی یہ جو زرخیز زمینیں ہیں، اب تقسیم کی بجائے اسلامی مملکت کا حصہ ہیں تاکہ ریاست کا سازو سامان پیدا کیا جائے ،مشاورت آگے سے آگے بڑھتی ہے اور اس طریقہ سے خلافت کا نظام پوری قوت کے ساتھ انسانیت کے سامنے روشن ہوجاتا ہے۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلام نے اپنے خلافت کے نظام کے ذریعے سے انسانیت کو جو حکمرانی کے اُصول عطا فرمائے ہیں اس میں انسانوں پر انسانوں کی حکمرانی کو ختم کرکے انسانیت پر لا الٰہ الا اللہ کی حکمرانی کو قائم کیا گیا ،معاشرے میں عدل بین الناس کا ایک عدیم المثل نظام قائم کیا۔جبکہ آج کے معاشرے میں افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ وکیل کرنے کی بجائے جج کر لیا جائے۔اور ایک ایک ہائی کورٹ کے اند ر ہزاروں مقدمات انسانیت کے منہ پر طمانچہ بنے ہوئے ہیں۔ آج انسان معاشرے کی خرابیوں کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہ خلافت کا نظام ہے جو عدالتوں کے نظام کو درست کرے گا، انصاف کے میزان اور ترازو کو قسطاس کے ساتھ قائم کرےگا ۔ جب تک خلافت کا نظام قائم نہیں ہو گا، معاشرے میں عدالتوں اور کچہریوں میں یہ ظلم جاری رہے گا،اس معاشرے میں موجود ایکسپورٹیشن کا ہرملازم اس بات کو سنے،عوام الناس، تاجراورکاشتکار اس بات کو سنیں کہ جب تک یہ نظام خلافت اپنے عدل اور عمل اجتماعی کو یہاں پر نافذ نہیں کرے گا تب تلک تمہاری عدالتیں انصاف کی بجائے ظلم کاشت کرتی رہیں گی تمہارے ہاں عدل کی بجائے لوٹ کھسوٹ جنم لیتی چلی جائے گی ۔سعودیہ میں |