نظام ِخلافت اور اس کی عظمتیں ہیں اور جب خلافت سنبھالنے کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسرے دن اپنے کپڑے کا کارو بار کرنے کے لئے نکلتے ہیں تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ پوچھتے ہیں کہ میاں یہ کہاں چل دئیے؟ فرمایا کہ بال بچوں کا پیٹ کہاں سے پالوں گا توعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب اُمت کی نگہبانی آپ کے سپر دکی جارہی ہے لہذا اُمّت کا بیت المال آپ کی کفالت کرے گا ،اورپھر وہ کفالت کس درجہ میں موجود تھی۔ تاریخ کے اندر ایسی مثال کہیں موجود نہیں ہے ۔اتنا سیر چشم تاجر جس کی تجارت کے ذریعہ سے مکہ کے غلاموں کو رہائی ملتی ہے اورجس کے ذریعہ سے غزوات کے اندر نصرت اور قوت کے سامان فراہم ہوتے تھے، وہ جب دنیا سے جاتا ہے تو کوئی بہت بڑا ساز و سامان موجود نہیں ۔عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب دنیا سے تشریف لے جاتے ہیں تو مال و دولت نام کی کوئی چیزآپ کے گھر میں موجود نہیں تھی بلکہ محدثین نے لکھا ہے کہ کچھ قرضہ آپ کے ذمہ تھا جسے ادا کرنے لئے مکہ میں بنو عدی کے وراثتی خاندانی مکانا ت کے حصوں سے جو حصہ اُن کے پاس آتا تھا اس کو فروخت کرنے کے بعد 22 لاکھ مربع میل کے حکمران شہادت اور نزع کے عالم میں اپنا قرضہ ادا کرنےکے لیے اپنا مکان اس کودے جانا پڑتا ہے۔ عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہوتے ہیں جس نے دس ہزاراونٹ غزوہ تبوک کے موقعہ پر پیش کیے اور اس موقع پر ایک تہائی فوج کے خرچ اُٹھائے ،جس نے اپنے گھر کے ساز و سامان کو دفاعی کاموں کے لئے وقف کیا۔ کنویں خریدے جارہے ہیں، زرہیں خریدی جا رہی ہیں۔مساکین اور یتامیٰ کے لئے رفاہی کام ہو رہے ہیں ۔لیکن خود اپنی حالت یہ ہے کہ چالیس دن تک کو ئی چیز ایسی نہیں ہے جو اُن کے گھر تک پہنچنے دی جار ہی ہو، اور وہ اسی عالم میں دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو 700 درہم کا اثاثہ اُن کے گھر کے اندر دکھائی دیتا ہے اور یہ اثاثہ کئی سالوں تک سینچ سینچ کر اُنہوں نے جمع کیا کہ اس کے ذریعے سے کوئی ایک غلام وہ اپنے لئے رکھ سکیں۔ اس اعتبار سے یہ چاروں خلیفہ دنیا سے اسی حالت میں نکلے ہیں۔ مسجد: خلافتِ اسلامیہ کا مرکز لیکن آج کی مملکتیں جو دنیا سے قرض پر پلی ہوئی اور پوری قوم کو قرضوں کے شکنجوں کے اندر جکڑے ہوئی ہیں،وہ یہ بات سوچنے کی کوشش کریں کہ یہ محلا ت ،یہ ایوان صدر تین |