معلوم ہے کہ مؤرخین کی عصبیتیں کہا ں کہاں چھپی رہیں، اُنہوں نے ملوکیت کے زمانہ میں تاریخ کے ذخیرہ کو کیسے نظر انداز کرنے کی کو شش کی )لیکن یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سیدنا عثمان کی بصیرت اور آپ کی خلافت کا کمال یہ تھا کہ صرف اٹھارا ،انیس سو بلوائی مدینہ کے اندر محاصرہ کرتے ہیں، سات سوکے قریب محافظ اور گارڈ موجود ہیں وہ اجازت طلب کرتے ہیں کہ اجازت دیجئے ہم گھنٹوں میں بلوائیوں کے اس فتنہ کو ختم کرتے ہیں، لیکن فرماتے ہیں کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ اُمت کے اندر میری ذات کے دفاع کے لئے اورمحض میری ذات کو بچانے کیلئے خون کا بازار گرم کیا جائے ۔ اُنہوں نے شہادت پیش کر دی، لیکن اُمت کے اندر کشت و خون کا بازار گر م ہونے نہیں دیا۔ یہ ان لوگوں کے کمالات تھے۔ خلفاے راشدین کے معاشی حالات یاد رکھئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پیغمبر ہیں اور صدیق ِاکبر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے ملنے والا نظام خلافت اپنی امت میں یوں جاری وساری کردیا کہ قرآن نے اس پر گو اہی دی کہ ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا۰۰۲۱﴾ [1] ’’یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں عمدہ نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ کو یاد کرتا ہے۔‘‘ یہ ماڈل اور اُسوۂ حسنہ ہے کہ تمہارا معاشرہ تمہاری معیشت اور عقائد، تمہارا تمدن اورسیاستیں، تمہاری ریاستیں ، تجارتیں اور زراعتیں ، داخلی اور خارجی، بین الاقوامی قوانین کس طریقہ سے سلجھ سکتے ہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا منظر اُن کے سامنے پیش کیا تھا پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسی تناظر میں یہ نظامِ خلافت آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس درجہ بڑھتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ کا جو آخری دن مدینہ میں بسر کیا، اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں جو چراغ روشن ہوا اس چراغ کا تیل کسی گھر سے اُدھار آیا ہوا تھا۔یہ |