Maktaba Wahhabi

52 - 111
اس کی باز پرس بھی ہو گی اور پھر ان خلفائے راشدین نے قران مجید کے اندر تمکن فی الارض کے جو شرائط اور لوازم تھے، اُنہیں اس شکل میں پورا کیا: ﴿ اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ1 وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ۰۰۴۱﴾ [1] ’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نماز قائم کریں،زکوٰۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں، برے کاموں سے منع کریں۔‘‘ دنیا کے اندر نمازوں کے نظام کے ذریعے مسلمانوں کی معاشرت، ان کی سوسائٹی، ان کا سماج ترتیب پاتا چلا گیا۔ زکوٰۃ و صدقات کے ذریعے ان کی معیشت ایک ہموار کیفیت اختیار کرتی چلی گئی۔ دنیا سے لوٹ کھسوٹ کا نظام ختم ہو گیا اور اُمرا اور غربا کے درمیان ایک ایسی صحت مند گردشِ دولت کو قائم کیا گیا کہ جس کے نتیجے میں محتاجی ختم ہو گئی اور اللہ نے اپنے غنی ہونے کے ذریعے سے انسانیت کو معیشت کا ایک حسن بخش دیا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعہ سے معاشرے کے اندر وہ کیفیات پیدا ہوتی چلی گئیں کہ معاشرہ جہنم کی دلدل سے نکل کر جنت نظیر بنتا چلا گیا اور اس طریقہ سے امن کی یہ کیفیت تھی کہ خوف کو اس طریقہ سے ختم کیا گیا کہ بد امنی، لوٹ کھسوٹ، راہزنی قزاقی ، ڈاکے اور چوری ، الغرض بد امنی کی جتنی بھی شکلیں تھیں، وہ ساری ایک ایک کر کے ختم ہوتی چلی گئیں اور معاشرہ جو دنیا کے اند ر رومیوں کے ظلم اور کسریٰ ایران کے ظلم کے اندر سسک رہا تھا، وہ معاشرہ جو مصر ، چین اور ہندوستان کے اندر بت پرستی اور مختلف قسم کی اصنام پرستی کے مظاہر کے اندر گرفتا رتھا،اسے ایک بار پھر اپنے مالک حقیقی کو پہچاننے کا موقع میسر آیا۔ یہ قران مجید اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ حکومت اور آپ کے اُسلوبِ خلافت کا اعجاز تھا کہ دنیا نے پہلی دفعہ ایک ایسا معاشرہ دیکھا۔ پہلی دفعہ ایک ایسی ریاست دیکھی ،پہلی دفعہ ایک ایسی سیاست دیکھی،پہلی دفعہ ایک ایسی معیشت دیکھی، پہلی دفعہ ایک ایسی معاشرت دیکھی، پہلی دفعہ ایک ایسی تہذیب دیکھی، پہلی دفعہ ایک ایسا تمدن دیکھا کہ جس کی مثال نہ اس سے پہلے دنیا کے اندر موجود تھی اور نہ آج1422 سال گزرنے کے بعد اس کا
Flag Counter