Maktaba Wahhabi

40 - 111
قرآن کے لیے مدارس میں داخلہ لے لیا، وہ ساتھ عصری تعلیم بھی حاصل کریں گے۔‘‘[1] 10. پاک بھارت ورلڈ کپ سیمی فائنل کرکٹ میچ ۳۰/مارچ ۲۰۱۱ء اصل مسئلہ یہ تھا کہ ۳۰ مارچ کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ ہونے والا تھا اور پوری دنیا کا میڈیا اسی کو اجاگر کر رہا تھا۔ اسی گرد میں ریمنڈ کیس کو بھی دبا دیا گیا اور اسی میں قرآنِ پاک کے نذر آتش کیے جانے کا مسئلہ بھی گول کر دیا گیا۔ یہ میچ صرف کرکٹ ٹیم نے نہیں، بلکہ پوری پاکستانی قوم نے کھیلا، جس کی لمبے عرصے سے تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ہر جگہ لوگ ورلڈ کپ میں مست تھے۔ لوگ پاکستان کی فتح کے لیے نفل اور تسبیح پڑھتے اور دعائیں مانگتے نظر آ رہے تھے۔ مساجد میں طلبہ کو خصوصاً دعائیں مانگنے کے لیے متعین کر دیا گیا تھا۔ پھر میچ کے موقع پر لوگ ہر چوکے اور چھکے پر تتلیوں کی طرح تھرکتے اور ناچتے تھے مگر سرفرازی پھر بھی نصیب نہ ہو سکی۔ وہ ’شاندار طریقے‘سے ہار گئی۔ اس کے بعد خبر آئی: کرکٹ میچ میں بھارت سے شکست: 5 شائقین صدمے سے چل بسے۔ دوسری طرف شکست کے باوجود واپسی پر پاکستانی ٹیم کا شاندار استقبال ہوا اور اس کو گرانقدر انعامات سے نوازا گیا۔ بس یہ ہے ہم جیسے مسلمانوں کے ’اسلام‘ کی حقیقت کہ قران جلے تو کوئی صدمے سے جان نہ ہارے۔ مگر کرکٹ میچ میں شکست سے 5 لوگ صدمے سے جان کی بازی ہار جائیں۔ ہم نے تو قرآن سے محبت کے اظہار کے لیے ایک دن بھی ٹی وی پر انڈیاکے ڈرامے اور انگریزوں کی بے ہودہ فلمیں نہ چھوڑیں، نہ اُن کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ فوراً امریکی سفیر کو طلب کر کے زبردست احتجاج ریکارڈ کروایا جاتا۔ اور ہر شخص اس موقع پر غم میں ڈوبا ہوتا، دشمن کو پتہ چلتا کہ اس نے کس غیور قوم کو للکارا ہے۔سعودی حكومت اس پر زبردست احتجاج ریکارڈ کراتی اور حرمین شریفین سے اس ظلم کے خلاف دنیا بھر کے مسلمانوں کو متحد وجمع کیا جاتا۔ او آئی سی اگر اس موقع پر بھی احتجاج نہ کر سکی تو وہ پھر آخر کس مرض کا علاج ہے! دوسری طرف یہ جو کرکٹ کا اتنا بخار قوم کو چڑھایا گیا،اس کی کیا وجہ ہے۔یہ کرکٹ میچ ہمارے لیے زندگی موت کا مسئلہ نہیں۔ یہ تو شاہانہ مزاج اقوام کا کھیل ہے۔ جس قوم کو دو
Flag Counter