Maktaba Wahhabi

39 - 111
ہمارا ایمان سوتا رہا۔ یہ خبر ۲۲ مارچ 2011ء کے صرف چند اخباروں میں چھپی۔ روزنامہ نوائے وقت نے ابتدا سے ہی اس میں مؤثر کردار ادا کیا تھا۔ ۲۳ مارچ کو عوام نے اپنی سطح پر ممکن بھر احتجاج کیا، ملک بھر میں مظاہرے ہوئے او رریلیاں ہوئیں۔ پنجاب اسمبلی میں شدید احتجاج ہوا۔ تحریکِ حرمتِ رسول نے ملعون پادری کو قتل کرنے والے کے لیے۱۰ کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا۔ حمید نظامی ہال میں ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے میں ٹیری جونز کو واجب القتل قرار دیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ مسلم ممالک احتجاجاً امریکی سفیروں کو نکال دیں۔ ایران، ترکی وغیرہ میں بھی احتجاج ہوا مگر ایک انوکھا احتجاج افغانستان میں ہوا کہ مظاہرین نے یو این او کا دفتر نذرِ آتش کر دیا۔ ۸ غیر ملکیوں سمیت۲۰ لوگ ہلاک ہو گئے۔ پھر اس میں تین مظاہرین بھی ہلاک ہوئے۔[1] تحریک حزب اللہ نے بھی اس موقع پر ٹیری جونز کو قتل کرنے والے کے لیے ۲۴ ملین ڈالرز کا اعلان کیاتھا۔ ہمارے حکمرانوں نے احتجاج تو کیا کرنا تھا ان کو یہ گلہ ہی رہا کہ ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب کہ سکھاتی نہیں مومن کو غلامی کے طریق تحریک حرمتِ رسول نے بھی اس موقع پر ممکن بھر سعی کی۔ تحریک حرمتِ رسول کے کنوینرصاحب نے ٹیری جونز کو دعوتِ مباہلہ دے ڈالی مگر اس نے جواب تک نہ دیا۔ ۲۰ مئی۲۰۱۱ء کو لاہور ہائی کورٹ نے ایک بار پھر وفاقی حکومت کو کہا کہ پاکستان کی حکومت فیس بک کے گستاخانہ خاکوں اور قرآن جلانے کے مناظر وغیرہ کے خلاف اقوام متحدہ اور او آئی سی میں معاملہ اُٹھائے اور ان کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائے۔ مگر دنیا بھر کا میڈیا بھی اس خبر کو چھپارہا تھا او رمسلم حکمران بھی تجاہلِ عارفانہ سے کام لے رہے تھے۔ ایک اور انوکھا ردِ عمل جو پنجاب میں عوام کی سطح پر سامنے آیا۔وہ یہ تھا کہ ’’نئے تعلیمی سیشن کے شروع ہونے پر سکولوں اور مساجد میں داخلے...پچپن ہزار طلبہ نے حفظِ
Flag Counter