Maktaba Wahhabi

38 - 111
گا۔ قرآن پر مقدمہ یہ ہے کہ نعوذ بالله یہ’دہشت گردی‘کی کتاب ہے۔ یہی دنیا میں دہشت گردی پھیلاتی ہے۔ اور پھر …… وہ کچھ ہوا۔ جس کا کوئی سچا مسلمان کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ ۲۲ مارچ کو روزنامہ نوائے وقت میں خبر شائع ہوئی: ’’ملعون پادری ٹیری جونز کی نگرانی میں قرآن پاک کو ایک گھنٹہ مٹی کے تیل میں ڈبو کر نذرِ آتش کر دیا گیا۔ یہ 30/افراد کی جیوری کافیصلہ تھا کہ قرآن واقعی دہشت گردی کی کتاب ہے اور ساتھ اُس نے کہا کہ ’’مسلمانوں نے اپنی کتاب کا دفاع نہیں کیا، اسلئے یہ اقدام کیا گیا ہے۔‘‘ جلتے قرآن پاک کے نسخے کے فوٹو بھی بنائے۔ فلوریڈا کے چھوٹے سے چرچ گینز ولی میں پادری وین سلیپ نے یہ قبیح فعل انجام دیا۔‘‘[1] خبر پڑھتے ہی میرے دل پر آرا چل گیا۔ یا اللہ! کیا میری زندگی میں یہ منحوس دن بھی آنا تھا۔ کیا میرے کانوں نے اتنی مذموم اور ناپاک جسارت کی خبر سننا تھی۔ میں اس سے پہلے دنیا سے کیوں نہ اُٹھا لی گئی؟ کیا مجھے اب دنیا میں زندہ رہنے کا حق ہے؟ جس کے رسول کی بار بار توہین کی جاتی ہو اور پھر اس کی مقدس کتاب کو دشمن یوں جلا ڈالے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون. أستغفر الله ثم أستغفر الله! یا اللہ! صرف اور صرف آپ سے فریاد ہے۔ ان فاسق و فاجر حکمرانوں نے جنونی ہندوؤں، عیسائیوں اور یہودیوں کو یہ جرأت و حوصلہ دیا کہ اب وہ براہِ راست ہمارے رسول پاک اور قرآنِ مجید کی ناموس پر حملے کرتے جا رہے ہیں اور پھر یہ سب کچھ علیٰ الاعلان کر رہے ہیں۔ اظہارِ رائے کا حق استعمال کرنے کا جواز پیش کرتے ہیں اور ہم صر ف اتنا کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں کہ ’’قرآن پاک جلے گا تو کیا امریکہ نہ جلے گا؟‘‘...’’قرآن پاک کی حفاظت کا ذمہ تو اللہ نے خود لیا ہوا ہے لہٰذا وہ خود ہی ان سے نبٹ لے گا۔‘‘ سوال یہ ہے کہ کچھ ہماری بھی ذمہ داری ہے یا نہیں؟ پھر نہ ہمارا کھانا چھوٹا، نہ پینا چھوٹا، نہ آرام و نیند میں کوئی فرق آیا۔ ہم تو صرف ایک دن کے لیے بھی ان ظالموں اور سرکشوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ نہ کر سکے۔ گویا قرآن جلتا رہا اور
Flag Counter