Maktaba Wahhabi

37 - 111
قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات پر کوئی مؤثر احتجاج نہ ہونے سے ان کو مزید شہہ ملی اور ایک ملعون پادری ٹیری جونز نے آگے بڑھ کر نائن الیون کی برسی کے موقع پر قرآن پاک کو جلانے کی دعوتِ عام دے ڈالی۔ فیس بک پر ایک پیج بنا دیا گیا: "Every body burn the Quran Day" اور ساتھ ہی پیغام دیا کہ ’’آزادئ اظہارِ رائے زندہ باد... انتہا پرستی مردہ باد! ‘‘ آخر اہلِ مغرب کے اس طرح کے توہینِ قرآن اور توہینِ رسالت کے پروگرام کے خلاف اسلامک لائرز فورم نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ دائر کی تھی کہ فیس بک پر پابندی لگائی جائے، کیونکہ اس میں جان بوجھ کر پیغمبرِ اسلام کے بارے میں توہین آمیز مواد رکھا گیا ہے اور دیگر لوگوں کو بھی ایسے مواد کی اشاعت کی دعوت دی گئی ہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اعجاز چودھری نے پاکستان میں ۳۱ مئی 2010ء تک فیس بک پر پابندی لگا دی تو عدالت میں موجود تمام لوگ یک دم خوشی سے اُچھل پڑے۔ پھر پاکستان کی ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے اس عدالتی حکم کے اگلے ہی دن 450 ویب سائٹس بلاک کر دیں کیونکہ ان میں قابل اعتراض اور اشتعال انگیز مواد پایا گیا تھا۔ لوگوں نے امریکی سازش کی شدید مذمت کی اور عدالت کے حکم کی تعریف کی۔ پھر ہزاروں غیور طلبہ نے بھی اس کا بھر پور ساتھ دیا۔ صرف چند دن کی اس پابندی نے دشمن کے حواس مختل کر دئیے۔ امریکی میڈیا فیس بک پر پابندی سے بہت پریشان ہوا، ان کی آمدنی میں یک دم کمی جو آ گئی تھی۔ یہ بد بخت صرف معاشی بائیکاٹ ہی کو سمجھتے ہیں اور تو کوئی احتجاج اور مظاہرہ وغیرہ ان پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں سی این این کی ایک رپورٹ تھی: ’’پاکستان انتہا پسندی پر پابندی لگائے، فیس بک پر نہیں۔‘‘ آخر یہ آزادیٴ اظہار کا پرچار کرنے والے کیوں دوسروں کے جذبات واحساسات سے بے بہرہ ہو جاتے ہیں۔ [1] اپنا معاشی نقصان دیکھ کر وہ وقتی طور پر اپنے منصوبے پر عمل درآمد سے باز آ گیا۔ لیکن کچھ دیر بعد ۱۵ جنوری ۲۰۱۱ء کو اس نے پھر اعلان کر دیا کہ اب تو وہ لازماً ۲۰ مارچ کو اپنے چرچ میں قرآن پر مقدمہ چلائے گا اور اپنی جیوری کے فیصلے کے مطابق قرآن کو سزا دے
Flag Counter