اور یہ بھی صرف ان حضرات کے خاص ماہرانہ تحقیقی ذوق کا ہی کرشمہ ہے کہ جس نے عمل کو ایمان کا جز قررا دینے والے او راس میں کمی و بیشی کے قائل جمہور اَئمہ فقہ و حدیث کے اصل عقیدے او رکمزوری کو پہچان لیا ہے (بقول ان کے)اور صدیوں بعد سب سے پہلے یہ سعادت بھی کسی او رکے نہیں بلکہ اِن حضرات کے حصے میں ہی آئی ہے۔ جناب ابوعزیر عبدالالٰہ یوسف جزائری صاحب اپنی کتاب’انحرافات د/ صالح الفوزان فی مسئلۃ الایمان‘ میں امام ابن عبدالبر کے تارکِ صلاۃ کی تکفیر کے متعلق اختلاف کو بیان کرتے ہوئے عدم تکفیر کے قول کی نسبت جمہور کی طرف کرنے کے ، قول کو ان کی کتاب ’التمہید‘[1] سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: لقد انتسب إلى قول الجمهور الذي لهم وعك في اعتقادهم[2] اور اعمال کو کمالِ ایمان کے لیے واجب قرار دینے کی وجہ سے ان جمہور اَئمہ کو مرجئہ کہتے ہوئے اور مسمی ایمان میں کمال کو سر چشمہ بدعت قرار دیتےہوئےموصوف راقم ہیں: أنه أوجب الأعمال وجوبا كماليا وليس أصليا في مسمى الإيمان وهذا القول هو ينبوع بدعية شر الكمال في مسمى الإيمان [3] نیز فرماتے ہیں: ولا يعرف ذلك إلا الذكى المتمرس وليس الحاطب ـــ وابن عبد البر ـــ الموافق للجمهور وهم (مرجئة الفقهاء)في مسئلة الإيمان[4] اور ایک جگہ فخریہ انداز میں کہتے ہیں: فظفرت بما جعلني اضرب به المثل هنا ووجدته يوافق المرجئة في معتقدهم صراحة لنظرة قاصرة كانت منه في الدليل والمدلول[5] قارئین کرام !(ہمارا مقصد یہاں تارکِ صلوٰۃ کے بارے میں کوئی حکم لگانا یا اس کو راجح |