Maktaba Wahhabi

27 - 111
و کیف أکون مرجئًا [1] ’’عبداللہ بن مبارک سے کہا گیا کہ آپ اِرجا (کا عقیدہ) رکھتے ہیں؟ تو اُنہوں نے جواب دیا : میں کہتا ہوں کہ ایمان قول و عمل ہے، لہٰذا میں مرجئہ کیونکر ہوں گا۔‘‘ امام ابو محمد حسن بن محمد بن علی بن خلف البربہاری متوفی 329ھ فرماتے ہیں: من قال: الإیمان قول وعمل، یزید وینقص فقد خرج من الإرجاء أوله وآخره [2] ’’جس نے کہا کہ ایمان قول و عمل ہے، زیادہ او رکم ہوتا ہے ،یقیناً وہ اِرجا سے اوّل وآخر نکل گیا۔‘‘ اسی لئے ناصر بن عبدالکریم العقل راقم ہیں: أنه لیس کل من رمي بالإرجاء فهو مرجيء لاسیما في عصرنا هٰذا، فإن أصحاب النزعات التکفیریة وأهل التشدد سواء فمن کانوا على مذاهب الخوارج أو من دونهم من الذین یجهلون قواعد السلف في الأسماء والأحکام، أقول: إن أصحاب هذه النزعات صاروا یرمون المخالفین لهم من العلماء وطلاب العلم بأنهم مرجئة وأکثر ما یکون ذلك من مسائل الحکم بغیر ما أنزل الله ومسائل الولاء والبراء و نحوها [3] ’’ہر وہ شخص جس کی طرف اِرجا کی نسبت کی جائے، ضروری نہیں کہ وہ مرجئہ ہی ہو، خاص طور پر ہمارے اس زمانے میں (کیونکہ) تکفیری رجحانات کے حامل اور متشدد حضرات، خواہ وہ خوارج کے مذاہب پر ہوں یا ان کے علاوہ ایسے لوگ ہوں جو اسماء و احکام میں سلف کے اُصول و قواعد سے جاہل ہیں، ایسے رجحانات کے حامل حضرات اپنے مخالف علما او رطالب علموں پر مرجئہ ہونے کا الزام لگاتے ہیں او ریہ اکثر الحکم بغیر ما أنزل اللهاور الولاء والبراء جیسے مسائل میں ہوتا ہے۔‘‘
Flag Counter