Maktaba Wahhabi

26 - 111
جہمیہ وغیرہ کے نزدیک اعمال قلوب بھی ایمان کاجز نہیں ہیں۔جبکہ شیخ البانی کےنزدیک اعمال قلوب ایمان کا جز ہیں۔ [1] سلف کے نزدیک مرجئہ میں سے کوئی بھی اعمال کو کمال ایمان کے لیے شرط تسلیم نہیں کرتا۔اور بعض حضرات کا یہ کہناکہ ’’مرجئہ ایمان کے لیے مطلق اعمال کو شرط کمال قرار دیتے ہیں‘‘ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ کیونکہ مرجئہ کے نزدیک تو ایمان شئ واحد ہے اس میں نیک و بد برابرہیں ، ایمان میں کمی وبیشی ہوتی ہی نہیں ،گنہگار بھی کامل الایمان ہے نہ کہ ناقص الایمان لہٰذا ان کے نزدیک اعمال ایمان کے لئے شرط کمال کیونکر قرار پائیں گے؟ مرجئہ کے نزدیک ایمان میں کمی و بیشی نہیں ہوتی۔جبکہ اہلسنت کے نزدیک ایمان میں کمی و بیشی ہوتی ہے۔اور شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: إننی أخالفهم مخالفة جذریة فأقول:الإیمان یزید و ینقص وإن الأعمال الصالحة من الإیمان وأنه یجوز الإستثناء فيه خلافا للمرجئة[2] ’’بلاشبہ میری ان(مرجئہ کے تمام فرقوں) سے بنیادی مخالفت ہے میں کہتا ہوں کہ ایمان زیادہ او رکم ہوتا ہے ، یقیناً اعمال صالحہ ایمان کا جز ہیں اوراس میں استثنا جائز ہے او ریہ (باتیں) مرجئہ کے خلاف ہیں۔‘‘ اِرجا کا الزام لہٰذا بعض حضرات کی طرف سے سلف کے پیروکار’ اہل السنّہ والجماعہ‘ جن کے نزدیک ایمان قول و عمل سے مرکب ہے، اور اس میں کمی و بیشی ہوتی ہے،کو مرجئہ او رجہمیہ ہونے کا الزام دینا انتہائی لغو ہے۔امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں: قیل لابن المبارك تری الإرجاء؟ قال أنا أقول: الإیمان قول وعمل
Flag Counter