صحته والسلف جعلوها شرطا فی کماله [1] ’’سلف نے کہا کہ (ایمان) دل سے اعتقاد، زبان سے اقرار اور عمل بالأرکان ہے اور اس سے ان کی مراد ہے کہ اعمال کمال ایمان کے لیے شرط ہیں او ریہیں سے (ایمان کے) زیادہ او رکم ہونے کا قول پیدا ہوا او رمرجئہ نے کہا کہ ایمان صرف اعتقاد اور اقرار ہے اور معتزلہ نے کہا کہ ایمان عمل، اقرار اور اعتقاد ہے ان (معتزلہ) اور سلف کے درمیان فرق کرنے والی چیز یہ ہے کہ انہوں نے اعمال کو صحت ایمان کے لیے شرط قرار دیا ہے اور سلف نے اعمال کو کمال ایمان کے لیے شرط قرار دیا ہے۔‘‘ خلاصۂ کلام خلاصہ کلام یہ ہے کہ جہمیہ کے نزدیک ایمان رب تعالیٰ کی معرفت کا نام ہے اور کفر اس سے جہالت کا۔ جبکہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: المعرفة بالشئ لاتعنی الإیمان به [2] ’’کسی چیز کی (صرف) معرفت (حاصل ہو جانے) سے مراد یہ نہیں ہے کہ اس کے ساتھ اسے ایمان بھی حاصل ہو گیا ہے۔‘‘ ماتریدیہ وغیرہ کے نزدیک ایمان دل سے تصدیق ہے۔ اور مرجئہ فقہا کے نزدیک ایمان، دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار ہے جبکہ اہلسنت، سلف صالحین کے نزدیک ایمان اعتقاد، زبان سے اقرار او رعمل سے عبارت ہے او رجو لوگ اس کے قائل نہیں ہیں۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ ان پر شدید نکیر اور تردید فرماتے ہیں۔ [3] مرجئہ کے نزدیک اعمال ایمان کا جز نہیں ہیں۔ جبکہ سلف کے نزدیک اعمال ایمان کا جزء ہیں اور ترجمان سلف علامہ البانی کے نزدیک بھی اعمال ایمان کا جزء ہیں ۔ [4] |