لا یتم له الإیمان إلابالعمل[1] ’’عمل کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔‘‘ امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ودلالة الشرع على أن الأعمال من تمام الإیمان لاتحصى کثرة [2] ’’اعمال ایمان کو پورا کرنے والے ہیں(اس پر)شریعت کے دلائل اس قدر زیادہ ہیں کہ کہ ان کو شمار نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ امام ابن تیمیہ مرجئہ جہمیہ اور غیر جہمیہ کی مسئلہ ایمان میں غلطی كی وجوہات کو بیان فرماتے ہوئے راقم ہیں: أحدها: ظنهم أن الإیمان الذی فی القلب یکون تاماً بدون العمل الذی فی القلب کمحبة الله وخشیته و خوفه والتوکل علیه والشوق إلى لقائه. والثاني: ظنهم أن الإیمان الذي في القلب یکون تاماً بدون العمل الظاهر وهذا یقول به جمیع المرجئة [3] ’’ان کا یہ گمان کرنا کہ عمل قلب جیسا کہ اللہ کی محبت، خوف، اس پر توکل اور اس کی ملاقات کے شوق کے بغیر ہی ایمان قلب مکمل ہے اور دوسری غلطی ان کا یہ گمان ہے کہ عمل ظاہری کے بغیر ہی دل کا ایمان مکمل ہے اور تمام مرجئہ اس کے قائل ہیں۔‘‘ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فالسلف قالوا: هو اعتقاد بالقلب و نطق باللسان وعمل بالأرکان، وأرادو بذالك أن الأعمال شرط فی کماله ومن هنا نشألهم القول بالزیادة والنقص کما سیأتي و المرجئة قالوا: هو اعتقاد ونطق فقط، والمعتزلة قالوا: هو العمل والنطق والإعتقاد والفارق بینهم و بین السلف أنهم جعلوا الأعمال شرطا فی |