نیز اہل السنۃ اس بات پر متفق ہیں کہ گناہگار مسلمان میں کم ازکم اس قدر ایمان تو موجود ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ ابدی جہنمی نہیں ہو گا۔ لیکن کیا اسے صرف مسلمان ہی کہا جائے گا اور مؤمن کا نام نہیں دیا جائے گا یا اسے مؤمن بھی کہا جائے گا؟شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والتحقیق أن یقال: إنه مؤمن ناقص الإیمان، مؤمن بایمانه، فاسق بکبیرته، ولا یعطی اسم الإیمان المطلق [1] ’’اور تحقیق یہ ہے کہ یہ کہا جائے گا کہ یہ مؤمن، ناقص الایمان ہے اپنے ایمان کے سبب مؤمن ہے جبکہ کبیرہ گناہ کی وجہ سے فاسق ہے اور اسے ایمانِ مطلق کا نام نہیں دیا جائے گا۔‘‘ اِیمان کے ناقص نہ ہونے کا سبب مرجئہ کے نزدیک ایمان کے شے واحد ہونے اور مؤمن گنہگار کے ناقص الایمان نہ ہونے کےسبب کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ یوں بیان فرماتے ہیں: قالت المرجئة على اختلاف فرقهم: لاتذهب الکبائرو ترك الواجبات الظاهرة شیئا من الإیمان إذ لوذهب شئ منه لا یبقى منه شئ فیکون شیئا واحدا یستوی فیه البر والفاجر [2] ’’اپنے فرقوں کے اختلاف کے باوجود (سب) مرجئہ کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہوں کا اِرتکاب اور واجبات ظاہرہ کا ترک ایمان میں کچھ بھی نقص و کمی پیدا نہیں کرتا کیونکہ اگر ایمان میں سے کوئی شئ کم ہوجائے (تو پھر) اس میں سے کوئی شئ باقی نہیں رہے گی پس ایمان شئ واحد ہے جس میں نیک و بد برابر ہیں۔‘‘ کمال ایمان امام آجری رحمۃ اللہ علیہ راقم ہیں: |