والی ہے، اصلاً اس میں کوئی تغیر (واقع )نہیں ہوگا۔‘‘ ناقص الإیمان مؤمن ایک طر ف تو آپ نے مرجئہ فقہا، جہمیہ ، کرامیہ اور ماتریدیہ کے ایمان کے بارے میں مذکورہ بالا رجحانات کا مطالعہ کیا ۔ آئیے دیکھیں کہ اہل السنّہ والجماعۃ کے نزدیک گناہ گار مسلمان کا ایمان کس حالت میں ہے۔ چنانچہ اہل السنّہ کے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب مؤمن ناقص الایمان ہے۔ آخرت میں وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے، اللہ چاہے تو اسے عذاب دے او رچاہے تو معاف کردے اور وہ اَبدی جہنمی نہیں ہے، البتہ خوارج او رمعتزلہ کے نزدیک یہ ابدی جہنمی ہے ۔ اس کے نیک اعمال کا ثواب ضائع ہوجائے گا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت بھی ان کے لیے کارگر ثابت نہیں ہو گی۔ البتہ خوارج اسے کافر کا نام دیتے ہیں اور معتزلہ فاسق کا، رہے مرجئہ تو وہ ان کے برعکس ہیں۔موسوعہ المذاہب میں ہے: إن مرتکب الکبیرة عندهم مؤمن کامل الإیمان ولا یضر إیمانه معصیته بل قال غلاة المرجئة: أنه لن یدخل النار من أهل التوحید أحد مهما ارتکب من ذنوب وخطایا [1] ’’کبیرہ گناہ کا مرتکب ان (مرجئہ) کے نزدیک مؤمن کامل الایمان ہے او راس کی معصیت اس کے ایمان کو نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ غالی مرجئہ نے کہا کہ اہل توحید میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہو گا خواہ جوبھی گناہ اس سے سرزد ہوجائیں۔‘‘ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ راقم ہیں: فقالت المرجئة جهمیتهم وغیر جهمیتهم هو مؤمن کامل الإیمان وأهل السنة والجماعة على أنه مؤمن ناقص الإیمان [2] ’’مرجئہ (خواہ) جہمیہ ہوں یا دوسرے (سب ہی ) کہتے ہیں کہ گناہ گارمؤمن، کامل الایمان ہے او راہل سنت والجماعت کے نزدیک یہ مؤمن ناقص الایمان ہے۔‘‘ |