الإقرار شرط لإجراء الأحکام في الدنیا [1] ’’یہ جو (مصنف نے) ذکر کیا کہ ایمان تصدیق اور اقرار ہے۔ (یہ) بعض علما کا مذہب ہے، اِمام شمس الائمہ اور فخر الاسلام بزدوی کا (بھی) پسندیدہ مذہب یہی ہے اور (جبکہ) جمہور محققین نے اس بات کو اختیار کیا ہے کہ ایمان دل سے تصدیق ہے اور اقرار صرف دنیا میں اجرائے احکام کے لیے شرط ہے۔‘‘ عقائد نسفیہ کی عبارت والإیمان لا یزید ولا ینقص ’’او رایمان نہ زیادہ ہوتا ہے اور نہ کم۔‘‘ كی شرح میں علامہ تفتانی راقم ہیں: فهٰهنا مقامان: الأول أن الأعمال غیر داخلة في الإیمان لما مرمن أن حقیقة الإیمان هوالتصدیق [2] ’’پس یہاں دو مقام ہیں: پہلا مقام یہ ہے کہ اعمال ایمان میں داخل نہیں ہیں، کیونکہ یہ بات (پہلے) بیان ہوچکی ہیں کہ حقیقت ایمان تصدیق ہی ہے۔‘‘ پھر اس پر مزید بحث کے بعد دوسرے مقام کو بیان فرماتے ہیں: المقام الثاني أن حقیقة الإیمان لا تزید ولا تنقص لما مر من أنه التصدیق القلبي الذي بلغ حد الجزم والإذعان وهذا لا یتصور فیه زیادة ولا نقصان حتی أن من حصل له حقیقة التصدیق فسواء أتى بالطاعات أو ارتکب المعاصی فتصدیقه باق علىٰ حاله لا تغیر فیه أصلا [3] ’’دوسرا مقام یہ ہے کہ بلا شبہ حقیقتِ ایمان نہ زیادہ ہوتی ہے او رنہ کم، کیونکہ یہ (بات پہلے )بیان ہوچکی ہے کہ ایمان وہ تصدیق قلبی ہے جو یقین او رتسلیم کر لینے کی انتہا کو پہنچی ہوئی ہو، اور اس میں زیادتی او رکمی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا حتیٰ کہ جس کویہ حقیقت تصدیق حاصل ہوجائے پس (اس کے لئے) یکساں ہے کہ وہ نیک اعمال بجا لائے یا گناہوں کا ارتکاب کرے، پس اس کی تصدیق اپنی حالت پر باقی رہنے |