سوچوں گا۔ اتفاق سے یہ خط صاحبزادے عبد الرحمٰن ثانی کے بجائے خزانچی جامعہ نور الدین کے ہاتھ آ گیا اور اس نے اس کی فوٹو کاپی کروا کر اصل خط صاحبزادے کو دیا اور فوٹو کاپی انتظامیہ کو دے دی۔ خط پڑھ کر منتظمین کا دل باغ باغ ہو گیا اور اُنہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ہم حضرت صاحب کوعہدے سے کبھی سبکدوش نہیں کریں گے اور اُن کی تنخواہ برابر جاری رکھی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اندر ابو سلمان داؤد بن علی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح زہد وورع اور حق گوئی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ آپ میں دو خوبیاں تو ایسی تھیں جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہیں اور وہ تھیں: حلم اور وقار۔آپ مخالف کی بات پر کبھی غصہ نہیں کرتے تھے ۔آپ اپنے والدِ گرامی قدر جناب عبد الحق کا بے حد احترام کرتے تھے اور اپنے ہر خط کے اختتام پر ابن عبد الحق بقلمہ رقم فرماتے اور اپنے اَساتذہ کا احترام تو اُن کے خمیر میں گندھا ہوا تھا۔ آپ کے وقار کا عالم ہزارو ں لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ، آپ جب کبھی بازار سے گزر کر جامعہ اہل حدیث چوک نیائیں گوجرانوالہ میں خطبہ دینے جاتے تو دوکاندار اور راہ گیر احترام سے کھڑے ہو کر مصافحہ کرتے اور آپ ہر واقف اور ناواقف سے اس طرح ملتے، گویا ان کے درمیان سالہا سال سے تعارف ہے۔ جہاں کہیں جانا ہوتا، اکیلے ہی چل پڑتے اور ہٹو بچو کہنے والوں کو کبھی ساتھ نہ لے جاتے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ ان کے قدموں کی خاک کے پیچھے چلنے والوں کی کمی نہ ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ آپ جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں اپنے روحانی فرزندوں سے ملنے آئے تو طلباے جامعہ سلفیہ کا جم غفیر آپ کے پیچھے پیچھے چل کر آپ کو الوداع کرنے جا رہا تھا۔ یہ روح پرور، ایمان افروز اورعلم کی قدر دانی کا منظر دیکھ رئیس التجار صوفی اَحمد دین صاحب (انصاف ٹیکسٹائل ملز فیصل آباد) صدر جامعہ سلفیہ میاں فضل حق رحمۃ اللہ علیہ صاحب سے پوچھنے لگے کہ یہ کونسی شخصیت ہے جن کے قدموں کی دھول کے پیچھے اتنے سارے طلبہ چل رہے ہیں؟ تو میاں صاحب نے جواب دیا کہ آپ کو پتہ نہیں یہ جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ کے بڑے سینئر استاد ہیں۔ مجھے تو ان کا درسِ بخاری سن کر شیخ زملکانی کے اَشعار یاد آ جاتے ہیں جو اُنہوں نے امام ابن تیمیہ رحمۃاللہ علیہ کی مداح میں کہے تھے: ماذا يقول الواصفون له؟ وصفاته حلت عن الحصر هـو حجــة الله قاهــرة هــو بيننا أعجوبــة الدهر هـو آية في خلــق ظاهرة أنــواره أريت عــلى الفجر |