Maktaba Wahhabi

104 - 111
مولانانے اِستفسار میں مرزا قادیانی کے خیالات ومقالات درج کرکے ،ان کی تصدیق وشہادت کے لیے اس کی تصانیف کی اصل عبارات بقید صفحات نقل کیں۔ فتویٰ میں اصل سوال یہ ہے کہ عقائد ِقادیانی اسلامی عقائد ہیں یا نہیں؟ اور ان عقائد میں قادیانی پابند وپیرو اسلام ہے یا اس کی پابندی سے خارج۔ اور ایسے عقائد والا شخص،ولی ،مجدد، ملہم،محدث ہوسکتا ہے یا وہ ان عقائد کے سبب دجال کہلانے کا مستحق ہے؟اس سوال کا اصل جواب مولانا نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مرزا قادیانی کے خلاف اَپنا فتویٰ ان الفاظ میں دیا : ’’ان عقائد ومقالات اور اس طریق عملی میں مرزا غلام احمد قادیانی ،پابندی اسلام خصوصاً مذہب اہل سنت سے خارج ہے۔ کیوں کہ یہ عقائد ومقالات وطریق عملی اسلامی وسنی نہیں بلکہ ازاں جملے بعض عقائد مقالات یونانی فلسفہ کے ہیں،بعض ہندووٴں کے، بعض نیچریوں کے ،بعض نصاریٰ کے، بعض اہل بدعت وضلالت کے اور اس کا طریق عملی ملحدین باطنیہ وغیرہ اہل ضلال کا طریق ہے۔ اور اس کے دعویٰ نبوت اور اشاعت اکاذیب اور ملحدانہ طریق کی نظر سے یقینا اس کو ان تیس دجالوں میں سے جن کی خبر حدیث میں وارد ہوئی ہے ایک دجال کہہ سکتے ہیں۔ اور ان کے پیروان وہم مشرب کو ذرّیات دجال۔‘‘ اس کے اختتامی جملے درج ذیل ہیں : ’’کتاب وسنت،واَقوال علماے اُمت اس فتویٰ کی صحت پر شاہد ہیں۔اب مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسے دجال کذاب سے احتراز کریں اور اس سے وہ دینی معاملات نہ کریں جو اہل اِسلام میں باہم ہونے چاہیں۔ نہ اس کی صحبت اختیار کریں اور نہ اس کو ابتداءً سلام کریں اور نہ اس کو دعوت مسنون میں بلاویں اور نہ اس کی دعوت قبول کریں۔اور نہ اس کے پیچھے اقتداء کریں اور نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں اگر انہی اعتقادات واقوال پر یہ رحلت کرے۔‘‘[1] ۱۰)فتاویٰ علماے کرام در بارہ تقرر امام از محمد عبدالرحمن جھنگوی ’’امام کی تقرری کے بارے فتاویٰ‘‘ اس مجموعہ کو ابو صمصام محمد عبدالرحمن جھنگوی نے مرتّب کیا ہے جس میں علما کے ۱۳۳۶/۱۹۱۸ء۔۱۳۴۲/۱۹۲۴ء کے دوران امام کے تقرری کے بارے میں دیئے گئے فتاویٰ
Flag Counter