Maktaba Wahhabi

96 - 107
کو تعلیم دیتے اور صابن بنا کر اپنا روز گار چلاتے۔ یہ بزرگ دادا جان کو داماد بنانے پر آمادہ ہو گئے اور نوشہرہ روڈ پر واقع ملک لال خاں والی مسجد میں آپ کا نکاح مولانا محمد علی لاہوری نے پڑھایا اور اس طرح آپ کا گوجرانوالہ کی سر زمین سے ایک مضبوط تعلق قائم ہو گیا اور اپنا گھر مل گیا۔ محدث حافظ محمد گوندلوی کے جامعہ محمدیہ دال بازار تشریف لے جانے پر جامعہ اسلامیہ کا کلی انتظام، انتظامیہ نے آپ کے سپرد کردیا ۔ 1956ء میں جامعہ سلفیہ فیصل آباد معرضِ وجود میں آیا۔ 2سال بعد دادا جان کو جامعہ سلفیہ میں تدریس کی دعوت دی گئی کہ آپ کو وہاں جامعہ اسلامیہ سے دو گنا زیادہ وظیفہ دیں گے۔آپ کو پیسوں سے دلچسپی نہ تھی بلکہ خدمت دین کا شوق تھا۔ اس کے علاوہ ملک کے دیگر مدارس سے بھی تدریس کی پیش کش ہوئی حتیٰ کہ مدینہ یونیورسٹی مدینہ منورہ سے بھی آفر آئی۔ آپ نے یہ کہہ کر کہ اگر مقصد علوم دینیہ کی تدریس ہے تو میں الحمدللہ یہاں کر رہا ہوں اور اس کی یہاں دیگر علاقوں سے زیادہ ضرورت ہے۔ کوئی آفر قبول نہ کی اور تا دم حیات جامعہ اسلامیہ، گوجرانوالہ ہی میں تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور اپنی زندگی کا آخری سبق بھی اسی مدرسہ میں پڑھایا۔ دادا جان کو دل کی تکلیف اور شوگر تھی جس کی وجہ سے آپ کی صحت دن بدن گرتی جا رہی تھی۔ جب آپ کی صحت زیادہ خراب ہوتی اور دوسرے اُستاد آپ کے اسباق پڑھاتے تو آپ اُن کو بلا کر اپنا اعزازیہ ان کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے کہ آپ نے میری غیر موجودگی میں میرے اسباق پڑھائے ہیں، اس لیے اس تنخواہ پر آپ کا حق ہے مگر اساتذہ احترام وسعادت کی بنا پر بے احد اصرار کر کے آپ سے تنخواہ نہ لیتے۔ دادا جان اپنے استاد ِمحترم کا بے حد احترام کرتے۔ آپ کے استادِ محترم محدث زماںحافظ محمد گوندلوی نے اپنی ناسازئ طبع کی وجہ سے فتویٰ لکھنے کا منصب اپنی زندگی میں ہی دادا جان کو دے دیا تو دادا جان نے اس بات کو مدّنظر رکھتے ہوئے کہ اُستاذِ محترم کے دل پر غم کا کوئی شائبہ نہ آئے، آپ ہر سائل فتویٰ کو اس بات کا پابند کردیتے کہ میرے فتویٰ کو محدث گوندلوی سے تصدیق کروا کر لے جاؤ۔ کوئی فتویٰ حافظ محدث محمد گوندلوی کی تصدیق کے بغیر نہ جانے دیتے۔ آپ کے تلامذہ آپ کے شاگردوں کی فہرست بڑی طویل ہے۔ آپ کے بہت سارے تلامذہ آپ کی
Flag Counter