زندگی میں ہی مختلف مدارس میں بحیثیت مفتی اور شیخ الحدیث اپنے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ آپ کے چند نمایاں اور معروف و مشہور تلامذہ درج ذیل ہیں: شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانبازسیالکوٹ، شیخ الحدیث حافظ ارشاد الحق اثری فیصل آباد، شیخ الحدیث مولانا محمد اعظم گوجرانوالہ،شیخ الحدیث ابو تقی حفیظ الرحمٰن لکھوی لاہور،شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ زاہدی صادق آباد، شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد الیاس اثری گوجرانوالہ،شیخ الحدیث مولانا محمد امین محمدی گوجرانوالہ،شیخ الحدیث مولانا حافظ سید محمد اکرم گیلانی گوجرانوالہ،شیخ الحدیث مولانا فاروق احمد راشدی گوجرانوالہ،شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام کوٹ بھوانی داس،حکیم مولانا ادریس فاروقی سوہدروی، فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر فضل الٰہی،علامہ احسان الٰہی ظہیرشہید،مولانا میاں محمد جمیل لاہور،مولانا حافظ عباس انجم گوندلوی گوجرانوالہ ،مولاناحافظ احمد شاکر لاہور،مولانا عبدالستار حامد وزیر آباد ،مولانا محمود احمد میر پوری،مولانا قاضی عبدالرشید جہلن،مولانا محمد یحییٰ گوندلوی،مولانا محمد مدنی جہلم،مولانا محمد ذوالفقار ذکی،مناظر اہل حدیث مولانا شمشاد احمد سلفی نارنگ منڈی،مولانا عبدالرحمن عتیق وزیر آباد،مولانا احسان الحق شہبازقلعہ دیدارسنگھ وغیرہ ان کے علاوہ آپ کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے جو اندرون و بیرو نِ ملک دین کا کام کر رہے ہیں۔ کئی تلامذہ دادا اباجان کے بعد وفات پا چکے ہیں۔ دادا جان شاگردوں سے اپنی اولاد کی طرح محبت و شفقت کرتے تھے اور ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کو بھی مد نظر رکھتے تھے۔ بہت افسوس اور حسرت ہوتی ہے اور دادا جان کی بہت ہی کمی محسوس ہوتی ہے۔ جب آپ کے حالاتِ زندگی پڑھتے ہیں، آپ کی باتیں والدین کریمین سے سنتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اتنی جلد دادا جان کو ہم سے دور لے گیا، مگر فطرة اللہ سے فرار ممکن نہیں۔ دنیا میں کسی شخصیت کو ہمیشہ رہنا ہوتا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی کتبِ احادیث میں گونجتی ’یا ابتاہ صلی اللہ علیہ وسلم ‘ کی صدا ہمیں سنائی نہ دیتی۔ اللہ تعالیٰ دادا جان کی بشری لغزشوں سے صرفِ نظر فرماتے ہوئے ان کی بخشش فرمائے اور ان کی قبر کو جنت کا باغیچہ بنائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ہمیں (اُن کے بیٹے بیٹیوں اور پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں) اور ان کے تلامذہ کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین! |