یادِرفتگان اُختِ عبدالواسع (مرحوم كی پوتی) شیخ الحدیث والتفسیرمولاناابوالبرکات احمد مدراسی رحمۃ اللہ علیہ میرے دادا ابا جان جن کو لوگ مولانا ابو البرکات احمد کے نام سے جانتے ہیں، 29 جولائی 1991ء کو خالق حقیقی سے جاملے۔ وہ چراغ تو بجھ گیا مگر اپنے پیچھے اپنی روشن کرنیں چھوڑ گیا جس سے آج بھی لوگ فیض یاب ہو رہے ہیں اور جب تک قرآن و سنت کی تعلیم جاری ہے، اس سے فائدہ مند ہوتے رہیں گے۔ ان شاء اللہ آپ مدراس کے شہر چمناڈ کے نواحی قصبہ ’کاسرگود‘ میں 1926ءمیں پیدا ہوئے۔ والدین نے آپ کا نام اپنی زبان ’مالے یالم‘ میں ’سی سی احمد‘ رکھا جس کا اُردو ترجمہ ابوالبرکات احمد ہے۔ بچپن سے ہی دادا جان کو اسلامی ماحول ملا۔ آپ نے ناظرہ قرآن اپنی والدہ محترمہ سے پڑھا اور چمناڈ کے ایک مقامی مدرسہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔آپ کو دینی علوم کے حصول کے لیے والدین نے وقف کر دیا تھا۔ آپ کو مولانا محمد عباس کانن گاڈی کی خدمت میں بھیج دیا گیا، جہاں تقریباً دو سال صرف و نحو اور علومِ عربیہ پڑھتے رہے۔ عربی سے اتنا شغف تھا کہ فارغ اوقات میں بھی عربی ہی کی کتب کا مطالعہ کیا کرتے۔ ذہانت وقابلیت اور انتہائی محنت کی وجہ سے دو سال کے اندر آپ میں اتنا اعتماد پیدا ہو گیا کہ صرف ونحو میں کوئی مزید کتاب پڑھنے کی ضرورت نہ رہی۔ عربیت میں بھی خوب مہارت حاصل ہو گئی۔ سیکڑوں عربی اشعار یاد کر لیے اور کافی حد تک قرآن حفظ کر لیا۔ کیونکہ آپ کے اُستاد مولوی محمد عباس کی عادت تھی کہ وہ نحو اور ادب ِعربی یا لغت کے بارے میں قرآنِ مجید سے استشہادکرنے کو ترجیح دیتے تھے۔ اُن کے اِس انداز کو دادا جان نے بہت پسند کیا جس کی وجہ سے قرآن سے محبت بڑھتی گئی اور آخر تک آپ بھی قرآن سے ہی استشہاد کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ مولانا محمد کانن گاڈی کے مدرسہ میں چلے گئے جہاں آپ نے فقہ شافعی، تفسیربیضاوی، تفسیر المنار، معالم التنزیل، خازن، کشاف، فتح البیان، ابن کثیر، فتوحاتِ الہیہ، الفیہ اور اس کی چاروں بڑی شرحیں اور حواشی، اُصول الحدیث پڑھیں، پھر وہیں آپ نے مولانا ابوبکر سے فقہ شافعی اورصحیح مسلم کا درس بھی لیا۔ اس کے بعد آپ علامہ جادی ایری کی |