بدعات و خرافات حافظ عمران الٰہی صفر المظفر اور نحوست كا مسئلہ؟ ’حقیقت‘ خرافات میں کھو گئی! اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ضلالت و جہالت سے مبرا اور دلائل و براہین سے آراستہ ہے، اسلام کے تمام احکام پایۂ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔اور اس دین مبین میں خرافات وبدعات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اب کوئی نام نہاد عالم دین، مفتی یا محدث ایسا نہیں جو اس دین مبین اور صاف و شفاف چشمے میں بدعات و خرافات کا زہر ملائے لیکن افسوس ہے کہ شیطان اور اس کے پیروکاروں نے اس دین صافی کو ضلالت و جہالت سے خلط ملط کرنے اور خرافات سے داغ دار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دیگر مہینوں کی طرح ماہِ صفر میں بھی کچھ جاہلانہ رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ صفر کا مہینہ اسلامی مہینوں کی لڑی کا دوسرا موتی ہے۔ اس مہینے کے بارے غلط باتوں کو ختم کرنے کے لیے اسے ’صفر المظفر‘ کہا جاتا ہے۔ صفر کے متعلق قدیم خیالات قبل از اسلام اہل جاہلیت ماہِ صفر کو منحوس خیال کرتے اور اس میں سفر کرنے کو برا سمجھتے تھے، اسی طرح دورِ جاہلیت میں ماہِ محرم میں جنگ و قتال کو حرام خیال کیا جاتا تھا اور یہ حرمت ِ قتال ماہ صفر تک برقرار رہتی لیکن جب صفر کا مہینا شروع ہو جاتا، جنگ و جدال دوبارہ شروع ہو جاتے لہٰذا یہ مہینہ منحوس سمجھا جاتا تھا۔ عرب کے لوگ ماہ صفر کے بارے عجیب عجیب خیالات رکھتے تھے۔ شیخ علیم الدین سخاوی نے اپنی کتاب ’المشہور فی اسماء الایام والشہور‘ میں لکھا ہے: ’’صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً اُن کے (اہل عرب) گھر خالی رہتے تھے اور وہ لڑائی بھڑائی اور سفر میں چل دیتے تھے، جب مکان خالی ہوجاتے تو |