محمد صلی اللہ علیہ وسلم )) [1] ’’صدقات لوگوں کے ہاتھوں کی میل کچیل ہے جو میرے لیے اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال نہیں۔‘‘ اور مذکورہ بالا احادیث میں فرمایا : «ماترکنا فهو صدقة» ان دونوں احادیثِ صحیحہ کو باہم ملانے سے ثابت ہواکہ انبیاء علیہم السلام کا ترکہ اُن کے ورثا پر حرام ہے کیونکہ وہ صدقہ ہے۔ شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں: وفي هذا الحکم سر آخر و هو أنه صلی اللہ علیہ وسلم إن أخذها لنفسه وجوز أخذها لخاصته والذین یکون نفعهم بمنزلة نفعه کان مظنة أن یظن الظانون ویقول القائلون في حقه ما لیس بحق[2] ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل پر صدقہ کے حرام ہونے میں دوسرا راز یہ ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مال کو اپنی ذات کے لیے یا اپنے خاص افراد کے لیے جن کانفع آپ کا اپنا نفع ہے، کے لیےجائز قرار دیتے تو آپ کے خلاف بدگمانی کرنے والوں او رناحق اعتراض کرنے والوں کو موقع ہاتھ آجاتا کہ یہ نبی دنیا کا کتنا حریص کہ غربا و مساکین کا حق کھانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔‘‘ پانچویں حکمت اگر انبیا علیہم السلام کے ترکہ میں عام رائج قانونِ میراث جاری رکھا جاتا تو ممکن تھا کہ بشری تقاضوں اور دنیا کی حرص کی وجہ سے ان کے ورثا اُن کی موت کا انتظار کرنے لگے جاتے جو ان کے حق میں وَبال ثابت ہوتا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے نبی کے ورثا کی بہتری کے پیش نظر ان کو ترکہ سے محروم کرکے دنیا کا عارضی نقصان برداشت کروا کر آخرت کے وبالِ عظیم اور ہمیشہ کی ہلاکت سے بچالیا۔ میرے علم کے مطابق یہ وہ حکمتیں ہیں جن کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ میں قانونِ وراثت جاری نہیں فرمایا گیا۔ واللہ تعالیٰ اعلم [مذکورہ بالا تینوں مباحث مولانا موصوف کے کتابچہ سے ماخوذ اور اُن کا خلاصہ ہیں۔ تلخیص از کامران طاہر] |